بدھ، 29 اپریل، 2015

خود کشی کی حرمت ۔ علامہ مفتی محمد ارشد القادری

حضرت ابوہریرہرضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو اپنا گلا گھونٹ کر مرتا ہے وہ جہنم میں اپنے آپ کو گلا گھونٹ کر مارتا رہے گا۔
 جو نیزہ مار کر خو د کو قتل کرتا ہے وہ جہنم میں اپنے آپ کو نیزہ مارتارہے گا(بخاری ،کتاب الجنائز) اس حدیث مبارکہ میں اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ایک بہت بڑی نعمت ’’ زندگی ‘‘ کا ذکر ہے اور جو اس کو خو د ضائع کرڈالے یعنی خو د کشی کرے اس کی سزا بیان ہوئی ہے ۔واقعی زندگی من جانب اللہ ایک بہت بڑی نعمت ہے اور اس نعمت کا کفر ان یقیناًاللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث ہے ۔ زندگی نعمت عظمی ہے اس کو خو د ختم کر ڈالنا اپنے اوپر تو ستم ہے ہی ، مخلوقِ خدا پر بھی ظلم کرنے کے مترادف ہے ۔خو دکشی حرام ہے ۔چونکہ زندگی اللہ تعالیٰ کی عطاکر دہ بہت بڑی نعمت ہے اس لیے اس کو خو د اپنے ہاتھوں ختم کر نا گناہ کبیرہ اورعملِ حرام ہے ماناکہ اس جہانِ فانی میں انسان پر بڑے بڑے سخت لمحات آتے ہیں مصا ئب وآلام کے پہاڑ ٹو ٹتے ہیں ظلم و ستم کے دروازے کھلتے ہیں ۔ زندگی کا ایک ایک لمحہ اجیرن ہوجاتا ہے،انسان اپنے ہی ہاتھوں اپنی زندگی ختم کرنے کی سو چنے لگتا ہے مگر صبر و تحمل کا تقاضا یہ ہے کہ ایسے آڑے مو قع پر وہ یہ سمجھے اور باور کرے کہ اللہ تعالیٰ کے محبوب بندوں انبیاء کرام ، صحابہ کرام اور اولیا ء عظام پر اس سے بھی کڑے اوقات آئے ۔ مگر وہ ثابت قدم رہے صبر اور تحمل سے کام لیا ۔ بالآخر اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنی کرم نوازی اور مہربانی کے دروازے کھول دیئے اور وہ دین و دنیا میں شاد ہو گئے ۔ یہ جو آئے دن اخبارات میں خودکشی کے واقعات کا تذکرہ آتا ہے اگر ان کا بغور جائزہ لیا جائے تو یقیناًبے صبری کا مظاہر ہ کرتے ہوئے جان دے دینا ۔ حالا ت زمانہ کا مقابلہ نہ کر سکتے ہوئے جان دے دنیا استقلا ل کا دامن چھوڑ کر جان دے دینا کسی کے سر چڑھ کر جان دے دینا بزعم خویش محبت و عشق کے نام پر جان دے دینا اور اس جہاں میں گویا اپنی مثال قائم کرنے کا گماں رکھنا ، یہ سب غلط اور بے سو د ہے اللہ و رسول نے اس کام اور ایسے فعل کو حرام قرار دیا ہے لہذا خو د کشی کرنے سے ہمیشہ اجتناب کرنا چاہیے ہاں اگر مصائب و آلام حدسے بڑھ جائیں اور پیمانہ صبر لبریز ہو جائے تو اہل علم ، علما ء دین اور نیک لو گوں کی صحبت اختیار کی جائے انشا ء اللہ ان دین والوں کی بیٹھک کا اثر یہ ہو گا کہ اس (غموں کے مارے ہوئے ) کا غم کا فور ہو جائے گا۔ اور اس جہان فانی میں کچھ کر جانے ، کوئی نیک کام انجام دے جانے کو جی چاہے گا ۔نعمت عظمی کا کفران :ایک حدیث مبارکہ میں آیا ہے ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب بھی اللہ تعالیٰ سے دعا کرو ، کچھ مانگو تو جنت الفردوس مانگو ، لمبی عمر صحت و تندرستی والی مانگو اور نیکیاں کثیر کرنے کی توفیق مانگو ، زندگی یقیناًایک انمول نعمت ہے اس کی حفاظت ضروری ہے مگر بعض نا عا قبت اندیش قسم کے لو گ دنیا میں ذرا سی ناکامی کے باعث مو ت کے منہ میں جانے کا سو چنے لگتے ہیں۔ مثلا کسی سے عشق ہو گیا اور اس میں ناکامی پر خو د کشی کرنے پر تل جانا اور یہ سمجھنا کہ ہم اس دنیا میں معزز ہوجائیں گے خو د کشی کرنے والے اکثر افراد کا نظریہ یہی ہوتاہے
محبت میں تو ناکام رہے
اب دنیا میں تو نام رہے
سچ یہ ہے کہ اگر محبت اللہ و رسول سے کی جائے تو کبھی ناکامی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت میں ہزاروں نہیں کروڑوں بلکہ لاتعداد بھلائیاں ہیں حضرت علی بن عثمان ہجویری المعروف داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب کشف المحجوب میں نقل کرتے ہیں ۔حضرت علی بن عثمان ہجویری المعروف داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ۔ ابتداً حضرت عبداللہ بن مبارک ایک نوعمر لڑکی پر فریفتہ ہو گئے ایک رات اپنے ساتھیوں سے اُٹھے اور ایک دوست کو ہمراہ لے کر معشو قہ کی دیوار کے نیچے آکر کھڑے ہوئے محبوبہ وقت مقررہ پر بر سر بام آئی اور صبح تک دونوں ایک دوسرے کے مشاہد ہ میں محو کھڑے رہے ۔ جب آپ نے نماز فجر کی اذان سُنی تو خیال کیا نماز عشا ء کی اذان ہے جب دن روشن ہو او ر آپ کو معلوم ہوا کہ ساری رات تو محبوبہ کے مشاہدہ میں محو ہو کر گزر ی ہے ۔ اس بات سے ان کو ایک سخت تبنیہ حاصل ہوئی او ر د ل میں کہنے لگے اے مبارک کے بیٹے تجھے شرم آنی چاہیے آج ساری رات تو خواہش نفس کے لیے کھڑا رہا اور پھر بھی تو بزرگی چاہتا ہے اور اس کے برعکس اگر امام نماز میں ذرا لمبی سورہ پڑھ لے تو دیوانہ ہو جاتا ہے اس دعوے ہوائے نفس کے مقابلہ میں تیرا دعویٰ ایمان کہاں ؟ چنانچہ آپ نے اسی وقت توبہ کی علم کی تلاش میں مشغول ہوگئے ۔ زہد و دیانت اختیار کی اور آخر کار ایسے بلند مرتبہ ہوئے کہ ایک دفعہ آپ کی والدہ نے باغ میں جاکر دیکھا کہ آپ سو رہے ہیں اور ایک بہت بڑاسانپ نیاز بوکی ٹہنی منہ میں لیے آپ پر سے مکھیاں ہٹا رہا ہے ۔بخاری شریف کی ایک روایت میں ہے :ابوہر یرہ  رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کو پسند کرتا ہے تو جبریل علیہ السلام کو آواز دیتا ہے بے شک اللہ تعالیٰ نے فلا ں کو اپنا محبوب بنا لیا ہے تو بھی اُسے یار بنا لے ۔ تو جبریل بھی اسے محبوب بنالیتے ہیں پھر جبریل علیہ السلام تما م اہل آسمان میں اعلا ن کرتے ہیں بے شک اللہ تعالیٰ فلاں کو اپنا محبوب بنا چکا تم بھی اسے محبو ب بنا لو ۔ تو آسمان والے بھی اسے دوست بنالیتے ہیں اور اس سے محبت کرنے لگتے ہیں ۔ پھر دنیا میں اس کی مقبولیت پیدا کر دی جاتی ہے ۔اس حدیث مبارکہ سے ثابت ہوا کہ ولی اللہ بہت مقام و مرتبے کا مالک ہو تا ہے جس سے اللہ محبت کرے ۔ حضر ت جبریل علیہ السلام محبت کریں تمام اہل اسلام محبت کریں اور تمام اہل زمین محبت کریں اس سے بڑھ کر مرتبہ کس کا ہو گا ۔ یہ جو بعض لو گ کہتے ہیں کہ قرآن میں دکھاؤ اللہ نے یہ فرمایا ہو کہ میں ولیوں کا دوست ہوں بھئی یہ بات کرنے والا تو جاہل ہی ہو سکتا ہے ۔ ولیوں کا مقام قرآن کی نص سے ثابت ہے اور ان کی مقبولیت کل کائنات میں ہے ۔ یہ حدیث صحیح ثابت ہے ۔ قرآن کریم سورہ جاثیہ کی آیت نمبر ۱۹ اور بخاری شریف کی حدیث ابھی ابھی آپ نے پڑھی ہے ۔ ایمان سے کہیے کیا اس سے ولیوں کی اللہ کے ہا ں مقبولیت کا ثبوت نہیں ملتا۔ یقیناًملتا ہے۔

مخلوق خدا پر ظلم
خو د کشی کرنے والا اپنے اوپر تو ظلم کرتا ہی ہے اس کے ساتھ ساتھ اس کا یہ عمل مخلوق خدا پر بھی ظلم کرنے کے مترادف ہے وہ ایسے کہ خو د کشی کرنے والے کے ماں باپ ہوں گے ۔ بہن بھائی ہوں گے ۔ دوست یار ہوں گے اور عزیز و اقر باء ہوں گے اس کے مرنے سے جوان سب افرادپر گزرے گی اس کا ذمہ دار بھی یہ خو دکشی کرنے والا ہی ہو گا ۔ اس لیے اگر مو ت خو د کشی سے نہ ہوتی تو مذکورہ بالا سب حضرات پر وہ پر یشانی اور غم والم مسلط نہ ہوتا جو خو د کشی سے مرنے والے کی موت سے ہو گا۔ پھر یہ بھی عین ممکن ہے خو د کشی کرنے والے کے مرنے کے بعد لو گ اس کے دوستوں میں سے کسی کو اس کے گھر والوں میں سے کسی کو یا اس کے عزیز و اقارب میں سے کسی کو مور دِ الزام ٹھہرائیں تو پریشانی اور بڑھ جائے گی ۔ بہر حال ہر مسلمان کو وہ جوان ہو یا بوڑھا خو دکشی جیسی نازیب حرکت سے بچنا چاہیے اگر کوئی کہے کہ تقدیر ایسے ہی تھی تو جواب قلندرِ لاہور سے سنیے

تیرے دریا میں طوفان کیوں نہیں ہے
خو دی تیری مسلماں کیوں نہیں ہے
عبث ہے شِکوہِ تقدیر یزداں
تو خو د تقدیر یزداں کیوں نہیں ہے

خو د کشی کی سزا : جب خو دکشی حرام ہے تو یقیناًاس جُرم کا ارتکاب کرنے والے کو سزا بھی ہو گی ۔ چنانچہ بخاری شریف میں ثابت بن ضحاک  رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ۔ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے اسلام کے علاوہ کسی اور دین کی عمداً قسم کھائی تو وہ وہی کچھ ہے جو اس نے کہا جس نے خو د کشی کی اپنے آپ کو کسی ہتھیار سے قتل کیا اس کو جہنم میں اسی ہتھیار سے عذاب دیا جائے گا۔حجاج بن منہال نے جریربن حازم ، حسن اور جندب کے حوالہ سے اس مسجد میں بیان کیا کہ نہ ہم بھولے اور نہ ہمیں خو ف ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جھوٹ روایت کریں گے ایک شخص جو زخمی تھا اس نے اپنے آپ کو مار ڈالا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا میرے بندے نے اپنی جان خو د ہی دے دی ااس لیے میں نے اس پر جنت حرام کر دی ہے ۔ (بخاری ، کتاب الجنائز )

ہاں مسلم شریف کی ایک روایت ہے :۔ حضرت جابر  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی طرف ہجرت کی تو طفیل بن عمر و  صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ہجرت کی اور ان کے ساتھ ان کی قوم کے ایک شخص نے بھی ہجرت کی ، پھر مدینہ کی ہوا ان کو ناموافق ہوئی وہ شخص جو طفیل کے ساتھ آیا تھا بیمار ہوااور تکلیف کے باعث اس نے کسی ہتھیار سے اپنی انگلیوں کے جو ڑ کاٹ لیے دونوں ہاتھوں سے خو ن بہنے لگا یہاں تک کہ وہ مر گیا ۔ پھر طفیل بن عمر و نے اس کو خو اب میں دیکھا اس کی شکل اچھی تھی مگر دونوں ہاتھوں کو چھپائے ہوئے تھا ۔ طفیل نے پو چھا تیرے ساتھ تیرے رب نے کیا سلوک کیا ؟ اس نے جو اب دیا اللہ نے مجھے بخش دیا اس لیے کہ میں نے ہجرت کی تھی اس کے نبی کی جانب ، طفیل نے کہا کیا وجہ ہے میں دیکھتا ہوں کہ تو نے اپنے ہاتھ چُھپائے ہوئے ہیں ۔ اس نے کہا حکم ہوا ہے کہ ہم ان کو درست نہیں کریں گے جن کو تو نے خو د بگاڑا ہے ۔ پھر یہ خواب طفیل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا۔ آپ نے فرمایا ، اے اللہ اس کے دونوں ہاتھو ں کو بھی بخش دے جیسے تو نے اس کے سارے بدن پر رحم کیا ہے۔ ( مسلم کتاب ایمان ، شرح نو وی) اس حدیث مبارک کی تشریح میں امام نو وی فرماتے ہیں :۔ اس حدیث میں دلیل ہے اس بڑے قاعدے کی جو اہلسنت نے قراردیا ہے کہ جو شخص خو د کشی کر لے یا کوئی اور گناہ کرے پھر تو بہ کیے بغیر مرجائے تو وہ کافر نہیں ہے اور نہ ضروری ہے کہ وہ جہنم میں جائے بلکہ وہ خدا کی مشیت پرہے اور قاعدہ ہے کہ گنہگاروں کو عذاب ہو گا اور گناہوں سے نقصان پہنچتا ہے اس حدیث کی روشنی میں علماء کرام نے خو دکشی کرنے والے کی نماز جنازہ پڑھانے کی اجازت دی ہے بلکہ اللہ سے دعا ہے وہ سب مومنوں کو راہ ہدایت پر قائم رکھے اور اپنے محبو ب صلی اللہ علیہ وسلم کا سچا پکا غلا م بننے کی تو فیق عطافرمائے ۔

آج کا معاشرہ :  آج مسلم معاشرہ جن مشکلا ت سے دو چار ہے وہ کسی صاحب عقل سے پوشیدہ نہیں ہر شخص اپنے نجی مفادت کے تحفظ میں لگا ہے اسے اس بات کی قطعا کوئی فکر ہی نہیں کہ نجی تحفظ کبھی اجتماعی تحفظ کی ضمانت نہیں ہو تا ہاں البتہ اجتماعی تحفظ نجی تحفظ کا ضامن ہو تا ہے ۔ اُمت مسلمہ جب بام عروج پر پہنچی تھی اس وقت وہ احتماعی سوچ ، اجتماعی تحفظ اور اجتماعی مفاد کی حامل تھی اہل ایمان ہمیشہ دوسروں کا خیال کرتے تھے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی دوسروں کے جذبات کی قدرکرنے کی توفیق عطا فرمائے( آمین )

علامہ مفتی محمد ارشد القادری (بانی جامعہ اسلامیہ رضویہ و امیر تعلیم و تربیت اسلامی پاکستان) کی کتاب ”جنت کا راستہ“ سے انتخاب

جمعہ، 17 اپریل، 2015

توبہ - یہ اسلام کے مبلغ

فیس بک پر مجھے ایک صاحب فرما رہے ہیں کہ ''میرے امام تو بہت عالی مقام ہیں آپ ان کے مقلد کیوں نہیں ہوجاتے''
میں نے لکھا "میں آپ کو کسی نظریے کا قائل ہونے کا نہیں کہہ رہا۔ یہ آپ کا ذاتی معاملہ ہے۔ میرا ذاتی معاملہ کیا ہے وہ مجھ پہ چھوڑ دیں"

جناب کا جواب:۔۔۔۔۔۔۔ اسلام میں نظریاتی طبقوں کی کوئی گنجائش نہیں۔ بلکہ یہ مکمل دین ہے اس کو اس کی اصل روح اور حالت میں اختیار کرنا دین اسلام سے جڑنے کا نام ہے۔ بصورت دیگر آپ بہتر جانتے ہیں۔

Abdul Razzaq Qadri     میں
ہاں! آپ نے اسلام ٹھیکے پر لے رکھا ہے ناں

دوسرے صاحب!
آپ تو ناراض ہوگئے بھائی۔ اسلام میں غصہ کو حرام قرار دیا گیا ہے۔

Abdul Razzaq Qadri
آپ کا کون سا اسلام ہے؟

دوسرے صاحب!
جو اللہ کے رسول نے سکھایا۔ اسے اصل حالت میں بغیر کسی تردد کے قبول کرلیا اور اسی میں بہت خوش ہوں۔


Abdul Razzaq Qadri
کس رسول کو مانتے ہیں آپ؟


دوسرے صاحب!
اللہ تعالی کے ارسال کردہ تمام انبیاء پر ایمان رکھتا ہوں کہ اس کے بغیر میرا دین ہی نامکمل ہے۔


Abdul Razzaq Qadri
مجھے سمجھ نہیں آئی آپ کس کس نبی کی بات کر رہے ہیں؟ پہلے آپ رسول کہہ رہے تھے۔ اب انبیاء۔


دوسرے صاحب!
مجھ پر لازم ہے کہ میں تمام انبیاء پر ایمان لاوں اور بے شک ان انبیاء میں چند ایک رسول بھی کہلاتے ہیں۔


Abdul Razzaq Qadri
ٹھیک ہے۔


دوسرے صاحب!
شکریہ۔


اب مجھے اس مبلغِ اسلام کے فرمودات میں سے کچھ پلے نہیں پڑا کہ کس امام، نبی اور رسول کی بات کر رہے تھے۔ کیونکہ میں انہیں جانتا نہیں کہ یہ صاحب کون تھے


مزید تفصیل جاننے کے لئے مندرجہ ذیل لنک

پیر، 13 اپریل، 2015

بنیادی حقوق محنت اور صلہ

انسان بنیادی حقوق کا طلبگار ہے اس کی روزمرہ  کی ضروریات با آسانی میسر ہونا اس کا فطری حق ہے پھر اسے اپنی آئندہ نسلوں کی بقا کا بھی خیال رہتا ہے، زندگی میں بہت سے معاملات پر انسان کا اختیار نہیں ہوتا۔
 جس کسی کے حالات و واقعات زمانے کو قابلِ تحسین نظر آرہے ہوں اسے بہت محنتی اور باکمال مانا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ چیزیں اس کا مقدر ہوتی ہیں جو اسے میسر ہیں۔ ان کو حاصل کرنے کے دو طریقے تھے، حقیقت میں ان چیزوں سے بڑھ کر یہ دیکھا جانا چاہئیے کہ یہ وسائل کوئی درست طریقے سے حاصل کرتا ہے یا غلط راستے کا انتخاب کرتا ہے۔
لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ کام کاج کرتے ہیں اس لئے وہ مال و دولت کماتے ہیں، یہ صرف ایک حوصلہ ہے جو خود کو دیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو لوگ کام کاج کو رزق کا معیار مانتے ہیں دل سے وہ یہ چاہتے ہیں کہ کام نہ کرنا پڑے اور ایسے وسائل ہاتھ لگ جائیں کہ آمدنی کا ذریعہ بند نہ ہو۔ اس کی مثال یہ ہے کہ پاکستان میں اکثر لوگ ملازمت چاہتے ہیں لیکن ملازم بن کر کام نہیں کرنا چاہتے۔ یہ لوگ تعلیم اس لئے حاصل نہیں کرتے کہ ان کی شخصیت میں نکھار آئے گا، بلکہ تعلیمی اسناد کو ایک ایسا ہتھیار مانا جاتا ہے جو کسی تعلیم یافتہ کو مال و زر کمانے کے قابل بنا دے۔  بھلا تعلیم کسی کے روزگار کو ماپنے کا کون سا پیمانہ ہوا؟ تعلیم یافتہ کا مطلب بر سرِ روزگار نہیں ہوتا۔
بلکہ معاشرے میں ایک ایسا عمومی رویہ ہونا چاہئیے جو دورانِ تعلیم بھی بچوں کو کام کاج کی عملی عادت ڈالے۔ کیا گریجویٹ ہونے کا معیار یہ ہے کہ جنابِ گریجویٹ کو سرے سے کسی کام کی سُدھ بُدھ نہ ہو۔ صرف چودہ یا سولہ سالہ تعلیم کی ڈگریاں ایک انسان کو معاشرے کا کارآمد فرد بنانے کے لئے کافی نہیں ہوتیں، ایک جوان فرد کو کوئی عملی کام بھی کرنا آنا چاہئیے۔ صرف سندیں اکٹھی کرکے نوکری نہ ملنے کے شکوے کرتے رہنا اور بے کار بیٹھے رہنا کوئی کمال نہیں۔
یہ درست ہے کہ اس معاشرے میں ساری گنگا الٹی بہہ رہی ہے۔ جس میں رہنمائی کا فقدان ایک بڑا عنصر ہے۔ اس قوم کو زیادہ سے زیادہ با شعور دانشمند حضرات کی طرف سے رہنمائی کی ضرورت ہے۔ہماری قوم کا رویہ تنقیدی ہے اب یہ تنقیدی انداز بہت ہوگیا۔ اب اس سے نکل کر تعمیری انداز اپنانا چاہئیے جس سے عوام کو معلوم پڑے کہ کرنا کیا ہے، جدید ذرائع ابلاغ کے ذریعے بہت اچھے طریقے سے قوم کی رہنمائی کی جا سکتی ہے
البتہ انسان کو اس کے بنیادی حقوق ہر صورت ملنے چاہئیں اس کے ساتھ ساتھ ہر کسی کو کوئی نہ کوئی کام ضرور کرنا چاہئیے۔ کام کرنا ضروری ہے صلہ قدرت کی جانب سے خود ہی مل جاتا ہے۔ صلے کی خاطر کام نہیں، بلکہ کام برائے کام ہونا چاہیے اور صلہ بطورِ بنیادی حقوق (میسر ہونا چاہیے)۔

One student dies, over hundred injured in Nairobi campus stampede

NAIROBI: A Kenyan student died and more than 100 others were injured as they fled after a electrical explosion triggered fears that their campus was being attacked before dawn on Sunday, officials said. 

      Students jumped from windows at their University of Nairobi residence halls or rushed out in a stampede that underlined growing tensions just over a week after Islamist gunmen stormed another university campus, killing 148 people.
“I could see the students jumping and one of them landed on his head,” said third-year student Felix Muriuki. Others said there were three loud blasts, plunging the dormitory into darkness, which heightened the panic among the students.
“We thought it was another al Shabaab attack,” said Eddy Capella, a first-year student. The dead student was among others who had tried to jump to safety at the Kikuyu campus, university vice chancellor Peter Mbithi told Reuters.
“We have lost one male student who fell from fifth floor,” Mbithi said outside the emergency section of the country’s main public hospital, Kenyatta National.
Kenya Power, the country’s main electricity distributor, said the explosion was caused by overloaded underground cable. Initial witness accounts had said a transformer exploded. Kikuyu students called on the government to do more to secure all universities. “I’m not feeling 100 percent safe on campus but I will continue with my studies,” Muriuki said.
Witnesses said the explosion occurred at about 4.30 am (0130 GMT), setting off terrified screams from the women’s wing of a dormitory.
The panic spread to the men’s wing, where students woke up and scrambled to get out. Students said the incident evoked memories of the April 2 attack on Garissa University College, about 200 km from the Somali border. Somalia’s Al Qaeda-aligned group al Shabaab claimed responsibility for that raid, which also came before dawn.

منگل، 7 اپریل، 2015

آل سعود نجدی کون ہیں

مسیلمہ کذاب (نبوت کا جھوٹا دعوے دار) کا نام، ابن حبیب، الحنیفی تھاجس سے پتا چلتا ہے کہ وہ اہل نجد کے علاقے میں آباد عرب کے سب سے بڑے قبائل میں سے ایک قبیلہ بنو حنیفہ کےحبیب نامی شخص کا بیٹا تھا۔ بنو حنیفہ، بنو بکر کی ایک عیسائی شاخ اور اسلام سے قبل ایک آزاد خود مختار قبیلہ تھا









Musaylimah's name was Ibn Habib al-Hanifi, which indicates that he was the son of Habib, of the tribe Banu Hanifa, one of the largest tribes of Arabia that inhabited the region of Najd. The Banu Hanifa were a Christian branch of Banu Bakr and led an independent existence prior to Islam. [1]

مسیلمہ کذاب اپنی جن خرافات کو 'وحی' بتاتا تھا ان میں سے اکثر باتیں قریش کے خلاف، اپنے قبیلے بنی حنیفہ کی برتری جتلانے والی ہوتیں۔

Most of his verses extolled the superiority of his tribe, the Bani Hanifa, over the Quraysh. [2]

ارتداد کی تحریک میں ان کے کردار کی وجہ سے، حضرت ابو صدیق رضی اللہ عنہ نے، بنو حنیفہ کے لوگوں پر ابتدائی مسلم فتوحات/جنگی مہمات میں حصہ لینے پر پابندی لگا دی تھی۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اس پابندی کو اٹھا لیا، اس کے بعد بنو حنیفہ کے لوگ عراق میں مسلمان فوج میں بھرتی ہونے لگے۔ ساتھ ساتھ 'حصون' یعنی فوجی چھاؤنیوں جیسا کہ کوفہ میں پاؤں جمانے لگے۔ 

Due to their role, in the Apostasy movement, members of Banu Hanifa were initially banned from participating in the early Muslim conquests by the first Caliph, Abu Bakr. The ban was lifted by Abu Bakr's successor Umar, and members of Bani Hanifa subsequently joined Muslim forces in Iraq, with some settling in garrison towns such as al-Kufa. [3]

 سعودی عرب کے موجودہ حکمران آل ِسعود اسی بنو حنیفہ قبیلہ سے تعلق رکھتے ہیں جو دراصل گستاخِ رسول مسیلمہ کذاب کا قبیلہ تھا اس کی تفصیلات جاننے کے لئے بنو حنیفہ کی یہ تاریخ پڑھنا سودمند رہے گا

Tribesmen from Banu Hanifa also supplied the ranks of rebellious movements such as the Kharijites. One member of the tribe by the name of Najdah ibn 'Amir, even founded a short-lived Kharijite state in al-Yamama during the Umayya era. [4]

13th Century OnwardsIn the 14th century, however, Ibn Batuta relating his visit to Hadjr, also states that most of its inhabitants are from Banu Hanifa, and even joins their emir, one Tufail ibn Ghanim, on a pilgrimate to Mecca. Little else is heard from Banu Hanifa thereafter, except that a number of clans in the region of Wadi Hanifa are given a Hanafite lineage by Jabr ibn Sayyar, the ruler of nearby Al-Qassab, in his short 17th-century manuscript on the genealogies of the people of Nejd. One such clan mentioned by Ibn Sayyar were the Mrudah, among whom later appeared Saudi Arabia's current rulers, the clan of Al Saud. Most of these clans mentioned by Ibn Sayyar, however, today claim membership of the large tribe of 'Anizzah, or to Wa'il, the purported patriarch of both 'Annizah and Hanifah. Scholars such as Hamad Al-Jassir attribute this to the need to associate with a more powerful bedouin tribe, and that 'Anizzah was chosen due to shared ancestry. [5]

اسی موضوع پر ایک معلوماتی اور دل افروز مضمون 'نقشِ اول کی تلاش' پڑھنے کے لئے یہ لنک  وزٹ کریں۔  [6]

صلاح الدین محمود کا یہ مضمون 'نقش اول کی تلاش' ایک معروف کتاب، تاریخِ نجد و حجاز، از مفتی محمد عبدالقیوم ہزاروی قادری سے لیا گیا۔ تاریخ نجد و حجاز، ابن عبدالوھاب نجدی کی تحریک اور خلافت عثمانیہ کے خلاف بغاوت، اہل نجد کا حجاز مقدس پر قبضہ اور مظالم اور اس سے متعلق مکمل تاریخی دستاویز ہے۔ کتاب پڑھنے کے لئے درج ذیل تین لنک وزٹ کریں۔ [7]
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ







پیر، 6 اپریل، 2015

مرزا محمد ہادی رسوا


مرزا محمد ہادی رسوا (1857ء تا 21 اکتوبر، 1931ء) ایک اردو شاعر اور فکشن کے مصنف (بنیادی طور پر مذہب، فلسفہ، اور فلکیات کے موضوعات پر) گرفت رکھتے تھے۔ انہیں اردو، فارسی، عربی، عبرانی، انگریزی، لاطینی، اور یونانی زبان میں مہارت تھی۔ ان کا مشہور زمانہ ناول امراؤ جان ادا 1905ء میں شائع ہوا جو ان کا سب سے پہلا ناول مانا جاتا ہے۔ یہ ناول لکھنؤ کی ایک معروف طوائف اور شاعرہ امراؤ جان ادا کی زندگی کے گرد گھومتا ہے بعد ازاں ایک پاکستانی فلم امراؤ جان ادا (1972)، اور دو بھارتی فلموں، امراو جان (1981) اور امراو جان (2006) کے لئے بنیاد بنا۔ 2003ء میں نشر کئے جانے والے ایک پاکستانی ٹی وی سیریل کی بھی بنیاد یہی ناول تھا۔
مرزا محمد ہادی رسوا کی زندگی کی درست تفصیلات دستیاب نہیں ہیں اور ان کے ہم عصروں کی طرف سے دی گئی معلومات میں تضادات موجود ہیں البتہ رسوا نے خود تذکرہ کیا ہے کہ ان کے آباء و اجداد فارس سے ہندوستان میں آئے اور ان کے پردادا سلطنت اودھ کے نواب کی فوج میں ایک ایڈجوٹنٹ تھے۔ جس گلی میں رسوا کا گھر تھا اسے ایڈجوٹنٹ کی گلی کے طور پر جانا جاتا ہے۔ انہوں نے اپنے والد اور دادا کے بارے میں اس سے زیادہ کچھ نہیں بتایا کہ وہ دونوں ریاضی اور فلکیات میں خاصی دلچسپی رکھتے تھے۔ مرزا محمد ہادی رسوا 1857ء کو، ایک گھڑسوار، فوجی افسر، مرزا محمد تقی کے گھر لکھنؤ، اتر پردیش میں پیدا ہوئے۔انہوں نے گھر میں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ وہ سولہ سال کے تھے جب ان کے والدین دنیا سے کوچ کر گئے۔ نوجوانی میں وفات پانے والےان کے بڑے بھائی مرزا محمد ذکی، ایک علمی شخصیت تھے۔ اس دور کے ایک مشہور خطاط حیدر بخش نے رُسوا صاحب کو خوش خطی سکھائی اور انہیں کام کرنے کے لئے کچھ رقم ادھار بھی لیکن حیدر بخش کی آمدنی ڈاک کی جعلی ٹکٹ سازی سے آتی تھی لہٰذا اُسے گرفتار کر لیا گیا اور ایک طویل مدت کے لئے قید کی سزا سنائی گئی۔رُسوا کے لکھنے کے کیریئر میں اُن کی مدد کرنے والے بہت سے لوگوں میں سے ایک اردو شاعر، دبیر بھی تھے۔ رسوا نے گھر میں تعلیم حاصل کی اور میٹرک پاس کیا، اس کے بعد انہوں نے منشی فاضل کے کورس کا امتحان دیا اور منشی فاضل ہوگئے۔
پھر رُسوا نے، روڑکی میں تھامس انجینئرنگ سکول سے، ایک اورسیر یعنی نگہبان (داروغہ، مہتمم، ناظر) کا ڈپلوما حاصل کیا۔ اس کے بعد، انہوں نے ریلوے میں ملازمت اختیار کرکے بلوچستان میں ٹریکس بچھائے۔ اس دوران انہوں نے مطالعہ کرنے اور لکھنے لکھانے کا سلسلہ جاری رکھا۔ ان کے پسندیدہ مضامین کیمسٹری، الکیمیا اور علم فلکیات تھے۔ مرزا ہادی رسوا نے ایک مختصر عرصہ کے لئے یہ سرکاری خدمات انجام دیں، پھر تدریس اور لکھنے لکھانے کے لئے لکھنئو واپس پہنچ گئے۔ انہوں نے، ایک مقامی مشن اسکول میں ایک استاد کے طور پر اور اس کے بعد کرسچین کالج میں لیکچرر کے طور پر  کام کیا۔ وہاں انہوں نے ریاضی، سائنس، فلسفہ اور فارسی پڑھائی۔ پھروہ حیدر آباد چلے گئے اور ایک سال کے لئے عثمانیہ یونیورسٹی میں ٹرانسلیشن بیورو میں کام کیا۔ وہ 21 اکتوبر 1931  کو ٹائیفائیڈ بخار سے پچھتر سال کی عمر میں فوت ہوگئے۔

انگریزی وکیپیڈیا سے اردو وکیپیڈیا کے لئے  ترجمہ: عبدالرزاق قادری

اگلی قسط کے لئے انتظار فرمائیں، یا انگریزی وکیپیڈیا وزٹ کرکے پڑھ لیں

ہفتہ، 4 اپریل، 2015

عسکریت پسندوں کے مزید حملوں کے انتباہ کے بعد، کینیا کے صدر کاسخت جوابی کارروائی کا عزم

گاریسا، کینیا: صومالیہ کے انتہا پسند گروپ الشباب نے، جمعرات کے روز گاریسا یونیورسٹی کالج پر حملہ کرکے، 148 افراد ہلاک کر دیئے تھے۔
اس گروپ نے ہفتہ (4 اپریل  2015) کے روز دھمکی دی ہے کہ، وہ اس طرح کے حملے جاری رکھیں گے۔ دہشگردوں کا کہنا ہے کہ، کینیا کے شہر سرخ خون میں بہا دیئے جائیں گے۔ دہشتگرد اپنے ان حملوں کا جواز یہ پیش کرتے ہیں کہ، صومالیہ میں ان کے خلاف کینیا کی افواج نے حصہ لیا، جس کا اب وہ انتقام لے رہے ہیں

جمعہ، 3 اپریل، 2015

کینیا: گریسا یونیورسٹی حملہ، ہلاکتیں 147 ہوگئیں

جمعرات (2 اپریل 2015) کی صبح کو، عسکریت پسند گروپ 'الشباب' کے نقاب پوش مسلح افراد نے شمال مشرقی کینیا میں ایک یونیورسٹی پر دھاوا بول دیا اور یونیورسٹی میں موجود افراد کو یرغمال بنا لیا۔ کینیا کے حکام کا کہنا ہے کہ حملے میں ہلاک افراد کی تعداد 147 تک پہنچ چکی ہے اور حفاظتی آپریشن مکمل ہوچکا ہے۔ حکام کے مطابق چار حملہ آور مارے جا چکے ہیں۔حکام کا کہنا ہے تمام طلباء کی گنتی کی جا چکی ہے جس کے مطابق 147  ہلاک ہوچکے ہیں۔ جبکہ 587 طالب علموں کو نکالا گیا ہے جن میں سے 79 زخمی ہیں۔ نو شدید زخمی طالب علموں کو علاج کے لیے دارالحکومت نیروبی پہنچایا گیا ہے۔ ملک کے کچھ حصوں میں رات کو کرفیو لگایا جا رہا ہے

دہشت گرد کافروں کے ایجنڈے پر ہیں


کینیا کی گریسا یونیورسٹی میں دہشتگردی کی واردات میں تقریباً 147 ہلاکتوں کی اطلاعات سامنے آرہی ہیں۔
ابھی چند روز پہلے کی بات ہے کہ  امریکی ایجنسی سی آئی اے کے بارے میں انکشاف ہوا ہے کہ وہ دہشت گرد تنظیم القائدہ کو ہتھیار خریدنے اور دہشت گردی کی کاروائیاں کرنے کے لئے بھاری رقوم فراہم کرتی رہی ہے۔ چونکہ افریقی ممالک میں دہشتگرد تنظیموں مثلاً الشباب اور بوکو حرام وغیرہ کی کڑیاں القاعدہ سے ملتی ہیں اور القاعدہ امریکن سی آئی اے کے ایجنڈے پر کاربند ہے۔ لہٰذا اس کا مطلب یہ ہوا کہ دنیا بھر میں اکثر دہشت گرد وہابی سوچ کے ہوتے ہیں ان کو القاعدہ کنٹرول کرے یا استعمال کرے بات ایک ہی ہے۔ البتہ وہابیوں (دیوبندیوں) کے نزدیک یہ جہاد ہے۔ اور ان کا ماسٹر مائنڈ کوئی اور نہیں بلکہ امریکی ایجنسی ہے جس نے دو طرفہ پالیسی سے دنیا کا امن تباہ کِیا ہوا ہے۔ میں تو آج پھر وہی کہوں گا جو ایک عرصے سے کہتا آیا ہوں کہ طالبان، (ہر قسم) جماعۃ الدعوہ، جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام، اخوان المسلمون، بوکو حرام، الشباب، داعش (آئی ایس) سمیت وہ تمام تنظیمیں جو اسلام کا نام لے کر بے گناہ لوگوں کو قتل کرتے ہیں وہ مسلمان کہلانے کے حق دار نہیں۔ انہیں اسلام یا انسانیت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ البتہ وہ سی آئی اے جیسی خبیث ایجنسیوں کے کتے ضرور ہیں۔ ان کی اس طرح کی حرکتوں سے کافر ایجنسیوں کو اپنے مذموم مقاصد کے لئے جواز فراہم ہو جاتا ہے۔