بدھ، 12 مارچ، 2014

Philosophy Science Technology and Islamic Beliefs

فلسفہ، سائنس، ٹیکنالوجی اور اسلامی عقائد
عبدالرزاق قادری
            طبیعات فزکس کوکہتےہیں جس میں چیزوں کےجسم کےعلم کامطالعہ کیاجاتاہےیعنی ماد ی اشیاءکےوزن،حرکت،حرارت اورمختلف حالتوں کےبارےمیں بحث کی جاتی ہے۔ جبکہ مابعدالطبیعاتی علو م روحانیت کےعلو م کو کہتےہیں جن میں جسم سےاگلےدرجےیعنی روح پربحث کی جاتی ہے مذہب ایک روحانی اورمابعدالطبیعاتی فلسفہ ہے۔ مذہب ایک روحانی فلسفہ ہے۔ دین کسی نظام زندگی کوکہتےہیں یعنی ضابطہ حیات کودین کہتےہیں۔ اسلا م صرف مذہب نہیں ہےیہ دین صرف ایک سیاسی نظام بھی نہیں ہے۔ یہ روحانیت کا اور فزیکلی نظام حیات کا مکمل مجموعہ ہے قرآن مجید میں اورحدیث پاک میں روحانیت کےواقعات بھی ملتےہیں اورفزیکلی جسمانی زندگی گزارنےکےقوا نین بھی ملتےہیں۔

سورۃالنمل میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے ایک صحابی کی روحانی طاقت کا تذکرہ واضح الفاظ میں موجودہےو ہ ملکہ بلقیس کاتخت سینکڑوں میل سےپل جھپکنےمیں لےآئےتھے،حضرت آصف بن برخیا  رضی الله عنہ، اللہ کے ایک ولی اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے صحابی تھے وہ حضرت سلیمان کے حکم پرسینکڑوں میل دورسےملکہ بلقیس کاتخت آنکھ جھپکنےسےپہلےاپنی روحانی طاقت سےلےآئےتھےاورقرآن کےالفاظ میں حضرت سلیمان نےفرمایاتھا۔ ھذامن فضل ربی۔ سورۃالنمل کامطالعہ کریں توقرآن کے واضح الفاظ میں یہ پتہ چلتاہےکہ جب حضرت سلیمان علیہ السلام نےاپنےدربارمیں فرمایا،کہ ملکہ بلقیس کاتخت کون لا ئےگا۔ ایک عفریت نے یعنی ایک جن نےلےآنےکاعرض کیالیکن ٹائم زیادہ لگناتھا،ملکہ کاقافلہ پہنچنے والاتھا۔ قرآن مجید کی آیات کا ترجمہ ملاحظہ ہو:38۔ سلیمان نے فرمایا، اے درباریو! تم میں کون ہے کہ وہ اس کا تخت میرے پاس لے آئے قبل اس کے کہ وہ میرے حضور مطیع ہو کر حاضر ہوں39۔ایک بڑا خبیث جن بولا کہ میں وہ تخت حضور میں حاضر کر دوں گا قبل اس کے کہ حضور اجلاس برخاست کریں اور میں بیشک اس پر قوت والا امانتدار ہوں40۔اس نے عرض کی جس کے پاس کتاب کا علم تھا کہ میں اسے حضور میں حاضر کر دوں گا ایک پل مارنے سے پہلے پھر جب سلیمان نے تخت کو اپنے پاس رکھا دیکھا، کہا یہ میرے رب کے فضل سے ہے ، تاکہ مجھے آزمائے کہ میں شکر کرتا ہوں یا ناشکری، اور جو شکر کرے وہ اپنے بھلے کو شکر کرتا ہے اور جو ناشکری کرے تو میرا رب بے پرواہ ہے سب خوبیوں والا۔
فلسفی لو گ زیاد ہ ترمابعدالطبیعات پر بحث کرتےہیں انگریزی میں اسےمیٹافزکس کہاجاتاہے۔لیکن سولہویں صدی کےبعد،جدیدسائنس نےروحانیت کایکسرانکارکیاہے اسکےبعدکےفلسفی لوگوں میں سےسیکولریعنی بےدین اوربدمذہب فلسفی سامنےآئےاوردنیاپرچھاجانےکی کوشش کی ملحداوربےدین فلسفیوں میں آپکوبڑےبڑےنام نظرآئیں گے۔ نطشے،روسو،کارل مارکس اورسٹالن وغیر اس کی مثالیں ہیں جدیدسائنسدانوں میں چارلس ڈارون اورنیوٹن وغیرہ شا مل ہیں دنیاوالوں نےان کااثرقبول کرکےسائنس اورٹیکنالوجی کوترقی کامعیارمان لیا۔ اندلس یعنی سپین میں مسلمانوں کے زوال اور تباہی و بربادی کی وجہ یہ تھی کہ وہاں مسلمانوں نے قرآن و حدیث کو چھوڑ کر سائنس اور فلسفہ میں سے رہنمائی تلاش کرنا شروع کردی تھی اور پھر سات صدیاں وہاں حکومت کرنے والے مسلمان برباد ہوگئے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی صرف معلومات اور ضرورت کی حد تک قابل قبول ہے لیکن اس سے نظریاتی رہنمائی حاصل کرنے کا گمان رکھنا یا اسی پر عقیدے قائم کر لینا، یا سائنس کے نظریات کو مان کر اپنے اسلامی  عقائد کا انکار کردینا بالکل گمراہی ہے، جیسے یہ ماننا کہ زمین گردش کرتی ہے۔ حالانکہ قرآن مجید میں اللہ کا رشاد ہے سورۃ یس شریف کی آیت نمبر 38 کا ترجمہ دیکھئے: اور سورج چلتا ہے اپنے ایک ٹھہراؤ کے لیے یہ حکم ہے زبردست علم والے کا۔۔۔اور سورۃ فاطر کی آیت نمبر 41 کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں: بیشک اللہ روکے ہوئے ہے آسمانوں اور زمین کو کہ جنبش نہ کریں اور اگر وہ ہٹ جائیں تو انہیں کون روکے اللہ کے سوا، بیشک وہ علم بخشنے والا ہے۔
 تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ماضی قریب کے کچھ ناپختہ عقائد کے حامل مسلمان، مادیت اور خشک معاشی لالچ کے جھانسے  میں آگئے، انہوں نے تعقل پر مبنی فلسفے کو ترقی کا معیار سمجھ لیا اور پستی کی جانب گامزن ہولیے، انہوں نے نہ صرف غلط فلسفہ اپنایا بلکہ مسلمانوں کو بھی گمراہی کی دلدل میں لا کھڑا کیا۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں