ہفتہ، 25 جنوری، 2014

کتاب "سید احمد شہید کی صحیح تصویر‘‘ پر ایک نظر۔۔۔ پہلی قسط

مجھے ایک کتاب بعنوان  سید احمد شہید کی صحیح تصویر فروری 2013 میں ایک دکان پر نظر آئی میں اسے خرید کر گھر لے آیا اور اس کا مطالعہ کیا بعد میں انٹرنیٹ پر سرچ کیا تو یہاں بھی مل گئی

اس کے مصنف وحید احمد مسعود ہیں، یہ کتاب رضا پبلی کیشنز  لاہور سے شائع ہوئی اس کتاب میں سید احمد شہید رائے بریلی کے حالات زندگی اور ان کی تحریک مجاہدین پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے زیادہ تر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مذکورہ سید احمد صاحب بر صغیر (پاک و ہند) میں پہلے وہابی تھے اور برصغیر میں سب سے پہلےاسماعیل دہلوی نے ان کے ساتھ مل کر وہابی مذہب کی بنیاد ڈالی، جیسا کہ میجر(ر) شکیل اعوان​ نے اپنے ایک کالم میں بھی تقریباً اسی طرح کا ملتا جلتا مؤقف اختیا کیا گیا ہے ان کے کالم میں سے چند جملے ملاحظہ فرمائیں، ’’رہی بات فرقوں میں بٹنے کی تو بر صغیر کی تاریخ اس امر کی گواہ ہے کہ حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی علیہ الرحمہ تک بر صغیر میں دو ہی مذہبی مسالک تھے یعنی سنی اور شیعہ۔ اس کے بعد جہاد اور اصلاح کے نام پر اسماعیل دہلوی اور سید احمد بریلوی نے جوفرقہ واریت پھیلائی جس کے اثرات سے آج بھی پاکستان کے درودیوار خون آلود ہیں ۔ پہلی دو کتابیں جو برصغیر میں فرقہ واریت کا باعث بنیں وہ اسماعیل دہلوی کی کتاب "تقویۃ الایمان‘‘ اور سید احمد بر یلوی کی کتاب ”صراط مستقیم‘‘ تھیں۔‘‘[1]

جناب محمد نجم مصطفائی کی کتاب منزل کی تلاش میں بھی اسی طرح کی بحث موجود ہے لیکن وحید احمد مسعود کی اردو میں لکھی گئی کتاب بنام سید احمد شہید کی صحیح تصویر  میں ان لوگوں سے قبل بھی وہابیت کی بے جان کھوکھلی بنیادوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، مصنف کے مطابق علماء اہلسنت نے سید احمد شہید بریلوی کا عقائد و مسائل کے حوالے سےجائزہ لے کر تو ضرور تنقید کی ہے لیکن اس کے تصوف کو موضوع بحث نہیں بنایا زیر نظر کتاب میں غلام رسول مہر کا یہ دعویٰ شامل کیا گیا ہے کہ سید احمد شہید کی ذات پر لکھا گیا جتنا مواد انہوں نے پڑھا ہے کسی اور نے نہیں پڑھا ہو گا، لیکن اس کے باوجود مصنف کو سید صاحب کی حیات پر لکھی گئی مختلف کتابوں میں بہت زیادہ تضادہ نظر آیا اور ان میں بے شمار فرضی قصے کہانیاں بھی دکھائی دیں، دین اسلام کے نام پر سید صاحب اور ان کے ساتھیوں کی ایسی ایسی شرمناک حرکتیں نظر آئی جو انسانیت کے لئے عار ہیں چہ جائیکہ وہ لوگ اسلام کے لئے جہاد کرتے یا تصوف کے علمبردار ہوتے یہ کتاب پہلی بار ہندوستان کے ایک رسالے منادی میں بطور خاص نمبر شائع ہوئی رسالے کے مدیر جناب حسن نظامی نے لکھا ہے کہ اس تحریر کے مصنف حضرت مولانا وحید احمد مسعود فریدی ہیں، نظامی صاحب آگے چل کر اس کتاب پر کچھ اس طرح سے تبصرہ کرتے ہیں، "زیر نظر مقالے میں مولانا فریدی نے حضرت سید احمد شہید کی ایک نئی تصویر پیش کی ہے، لیکن یہ تصویر کسی قدر دھندلی ہے، اس کے نقوش واضح نہیں، مولانا کا زیادہ وقت ان تصویروں کو ضائع کرنے میں صرف ہوا ہے جو دوسروں کی بنائی ہوئی ہیں اور جن کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ اصلیت سے کوئی واسطہ نہیں رکھتیں اور لوگوں کے تصورات کی پیداوار ہیں، ان تصویروں سے محروم ہونے پر لوگ کڑھیں گے، کیونکہ یہ تصویریں بہت خوبصورت اور بڑی دلکش تھیں، ان کے بدلے میں میں فریدی صاحب کی بنائی ہوئی جو تصویر لوگوں کو ملے گی وہ بری نہ سہی لیکن اتنی حسین بھی نہیں ہے لیکن حقیقت پسند آدمی کے لئے اس کے سوا چارہء کار بھی کیا ہو سکتا ہے؟ اگر مولانا فریدی کی رائے مان لی جائے اور ان کے فیصلے کو صحیح اور قطعی اور آخری فیصلہ سمجھا جائے تو ہندوستان کی تمام "نیم وہابی‘‘ تحریکوں کا سرچشمہ ایک ایسی تحریک قرار پائے گی جس کو ایک غیر مسلم اور غیر ملکی اقتدار یعنی انگریزوں کی شہ پر شروع کیا گیا تھا اور جس کے بعد کے آنے والے بے سمجھے بوجھے باپ داد کا قابل احترام ورثہ سمجھتے رہے اور جس کی خاطر اپنے اصل راستے سے بھٹک جانے میں بھی انہوں نے کوئی قباحت محسوس نہ کی ۔‘‘ [2]

 مصنف نے 1965 کی یکم جولائی (مطابق یکم ربیع الاول 1385) کو اس کتاب کا دیباچہ "فاتحہ‘‘ لکھا جس میں انہوں نے واضح کیا، "یہ رسالہ حضرت سید احمد شہید کی سوانح عمری نہیں ہے بلکہ ان تذکروں کی جو ان کے متعلق اس وقت تک لکھے گئے ہیں، ایک تنقید ہے، سوانح نویسوں نے حضرت سید احمد کو نہیں سمجھا اور کریکٹر کو نباہنے کی طرف توجہ نہیں کی، عقیدت مندی نے ذم کے پہلو کو سمجھنے نہیں دیا، کبھی آسمان کی کہہ دی اور کبھی زمین کی لکھ دی، یہ اپنے دعوے کو ثابت کرنے میں قطعی ناکام ہیں، لہٰذا سید صاحب کی عظیم شخصیت معمہ بن کر رہ گئی، ان کے سوانح یہی ظاہر کرتے ہیں کہ پیش ہر دو ہیچ، نہ انہیں ملا سمجھا جا سکتا ہے نہ ہی طبیب بتایا جا سکتا ہے، نہ ولی کہا جا سکتا ہے اور نہ ہی اور نہ عالم، ضرورت ہے کہ سب سے پہلے ان کی شخصیت کا تعین کیا جائے کہ وہ کس طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں، پھر اسی معیار سے ان پر روشنی ڈالی جائے‘‘ [3]

حوالہ جات:۔

حوالہ [1]: روزنامہ نوائے وقت 21 دسمبر 2013ء اور 22 دسمبر 2013ء

حوالہ [2]: سید احمد شہید کی صحیح تصویر،صفحہ نمبر 11 اور 12

حوالہ [3]: سید احمد شہید کی صحیح تصویر،صفحہ نمبر 13 اور 14

جمعہ، 24 جنوری، 2014

اسلامی تعلیم و تربیت کی ضرورت

اگر مسلم قوم و ملت کی تعلیم و تربیت اسلامی انداز میں کی جائے تو عین ممکن ہے کہ سیاسی، معاشی ، سماجی اور ثقافتی سطح پر ہمارے مقدر سنور جائیں۔ اگر کسی کو اس رائے سے اختلاف ہو یا غلط فہمی ہو تو وہ ذرا تاریخ عالم کا جائزہ لے اور بتائے کہ کیا کوئی قوم اپنے نظریہ کے مطابق مطلوبہ تعلیم و تربیت کے بغیر کبھی ترقی کر پائی اور کیا کسی قوم کا ستارہ اپنے نظریہ پر عمل کئے بغیر بام عروج پر پہنچ پایا۔ خواہ زندگی کا کوئی بھی شعبہ کیوں نہ ہو نئی آنے والی نسلوں کو اس میں قابل بنانے کے لیے مناسب تعلیم و تربیت کی ضرورت ہوتی ہے ہم اگر مفلسی دور کرنا چاہتے ہیں تو اپنے تعلیمی نظام کے ذریعے یہ کام با آسانی ممکن ہے، اگر اس قوم و ملت میں باہمی محبت و خدمت، چاہت، اخوت، ایثار و قربانی کے جذبے دوبارہ سے زندہ کرنا ہے تو اس کی تعلیم و تربیت درست اسلامی خطوط پر کرنا ہو گی، عالم اسلام میں موجودہ دور میں تمام مسلمانوں کو متحد ہو جانے کی ضرورت ہے، باہمی اتحاد ہونا چاہیے سب کو وحدت کی لڑی میں پرویا جانا چاہیے۔ ہر مسلمان دوسرے کو اپنا بھائی سمجھے اسے اس کے حالات سے آگاہی ہو آپس میں بھائی چارہ قائم رکھیں ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوں امیر و غریب، دیہاتی و شہری، ملکی و نسلی، صوبائی و لسانی، رنگ و ذات برادری، فرقہ و مسلک، مذہب و مشرب کے امتیاز سے بالا تر ہو کر کلمہ پڑھنے والے کے لیے دل میں نرم گوشہ رکھا جائے اسے محبت بھری نگاہ سے دیکھا جائے۔ ضرورت مند کی ضرورت کو سوال کیے بغیر اپنی ملی ذمہ داری سمجھتے ہوئے پورا کیا جائے۔ مفلس رشتہ داروں کی امداد کی جائے۔ کمزوروں اور طاقت وروں پر یکساں قانون کا نفاذ ہو۔ غریب کا استحصال نہ ہو۔ اپنے حق سے زیادہ کما لینے کی خواہش کو اللہ کے حکم کا غلام بنا کر ذبح کر دیا جائے۔
             چونکہ انسان اپنے افکار کے مطابق عمل کرتا ہے۔ اور اللہ فرماتا ہے کہ نماز بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے۔ باقاعدہ مسجد میں اس خالق کائنات کے حضور سجدہ ریزی کی جائے تو افکار پاکیزہ ہوں۔ اور نفس کے بے لگام گھوڑے کے تابع نہ ہوں۔ گاہکوں کو مہنگے داموں اشیاء فروخت نہ کی جائیں۔ تعلیم انتہائی سستی بلکہ بلا معاوضہ ہو۔ اہل اقتدار و ثروت ایک جیسا نظام تعلیم بنا کر قوموں کی تقدیریں بدل دینے والے جیسے اہم کام پر غور فرمائیں۔ آہ! اسلامی خلافت راشدہ کے وہ دن بھی کیا دن تھے جب حضرت عمر چھبیس لاکھ مربع میل کی وسیع ریاست میں تمام انسانوں بلکہ ساتھ ساتھ جانوروں کے بنیادی حقوق کو پورا کرنا اپنے اولین فرائض میں شمار کرتے بھی تھے۔ اور حقیقت میں ان کی خدمت کرتے بھی تھے۔ وہ عوام یعنی لو گ بھی کتنے عظیم تھے کہ دو وقت کا کھانا کھا کر اورا للہ کی عبادت کرکے مطمئن زندگی بسر کرتے تھے۔ وہ اپنے معاملات میں کامیابی کے لیے اللہ پر مکمل بھر وسہ کرتے وہ عیاش نہ تھے۔ کھلے عام گناہ کرنے والے فا سق نہ تھے بلکہ متقی لوگ تھے وہ اللہ کی رضا میں اپنی خواہشات کو چھوڑ دیتے اور کوئی ایسا کام نہ کرتے کہ جس سے اللہ نے منع فرمایا اس طرح وہ اللہ کی ناراضگی مول لینے سے محفو ظ رہتے۔ ہماری قوم کی تعلیم وتربیت اسلامی بنیادوں پر نہیں ہوئی۔ اس لیے ہم طرح طرح کے مسائل کا شکار ہیں۔ ہمارے اندر نیک جذبوں کی کمی ہے۔ بھلائی والے کاموں سے ہم لوگوں کی جا ن جاتی ہے۔ غریب جو ہے وہ بھی غریب کا استحصال کرنے سے باز نہیں آتا، ایک بار پھر التجا ہے کہ امتِ مسلمہ کو اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت اسلامی تعلیمات کی روشنی میں کرنا ہو گی۔ ہر قسم کی تبدیلیاں، انقلاب اور خوش حالیاں اسی جدوجہد میں پوشیدہ ہیں ۔ اللہ عزوجل ہم سب کو حق کی توفیق ارزانی فرمائے

بدھ، 22 جنوری، 2014

मुफ्ती ए आजम पाकिस्तान मोहम्मद अरशद अल कादरी

मोहम्मद अरशद अल कादरी (उर्दू: محمد ارشدالقادری) एक मुसलमान धार्मिक विद्वान एवं मुफ़्ती हैं । ये 1990 से लगातार दाता दरबार लाहौर (पाकिस्तान) की जामा मस्जिद में जनता की सांसारिक समस्याओं के धार्मिक दृष्टि से समाधान दे रहे हैं। वो अपने आगे उपलब्ध समय में कई लाख फ़त्वे दे चुके हैं। मुफ्ती मोहम्मद अरशद अल कादरी कई पुस्तकों के लेखक हैं जिनमें से दो दर्जन छप चुकी हैं. वह सही तिरमज़ी की दर लिख रहे हैं।



جمعہ، 17 جنوری، 2014

یہ جناب شیخ کا فلسفہ!

نوائے وقت میں 17 جنوری 2014 کو شہ سرخی آئی ہے کہ پشاور میں واقع تبلیغی مرکز میں دھماکہ اور کچھ نماز پڑھنے والے لوگ مر گئے اور کئی ایک زخمی بھی ہوئے، خبر جان کر ذہن میں خیالات آتے ہیں، اس کے لئے میں خبر اور خیال کا ایک سلسلہ شروع کررہا ہوں آئیے دیکھتے ہیں کہ کس خبر پر کیا خیال آتا ہے

خبر[1] طالبان کے رہنما احسان اللہ احسان کی جانب سے دھماکے کی شدید مذمت کرتے ہوئے مختلف ذرائع ابلاغ کو جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ہم پشاور کے تبلیغی مرکز میں ہونے والے دھماکے کی پرزور الفاظ میں مذمت کرتے ہیں اور اس دھماکے میں شہید ہونے والے افراد کی مغفرت کیلئے دعاگو ہیں۔

پیر، 13 جنوری، 2014

سنی مسلمان دہشت گرد نہیں اور دہشت گرد سنی نہیں ہیں

English article on same Blog: Sunni Muslim are not Terrorists and Terrorists are not Sunni

         آج کل کچھ میڈیا والے تاثر دے رہے ہیں کہ پاکستان اور دیگر ممالک کے سنی العقیدہ لوگ دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں اور اقلیتوں پر حملہ کرنے والے سنی تھے وغیرہ وغیرہ۔[1] یہ میڈیا گروپس اس معاملے میں جھوٹے ہیں وہ اہل سنت و جماعت کا نام دہشت گرد تنظیموں کے لئے کیوں استعمال کر رہے ہیں؟ یہ عسکریت پسند اور دہشت گرد تو وہابی اور دیوبندی فرقے کے لوگ ہیں جو کہ ہرگز سنی العقیدہ نہیں ہیں۔ ان کے باطل دین کا بانی محمد بن عبد الوہاب ہے۔ حوالے کے طور پر ڈان نیوز میں مرتضی حیدر کی رپورٹ ملاحظہ ہو جس میں یورپی پارلیمنٹ نے عالمی دہشت گردی کی بنیادیں وہابی اور سلفی فرقوں میں شناخت کی ہیں۔[2]
      سنی مسلمانوں نے اقلیتوں پر حملے کی مذمت کی، دی نیشن میں ایک خبر شائع ہوئی کہ سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین صاحبزادہ حامد رضا کی اپیل پر کونسل کے 30 مفتیان کرام نے پشاور چرچ حملے کے خلاف ایک فتویٰ جاری کیا۔ ان کے فتوی میں اعلان کی گیا کہ اس طرح کے حملے گناہ کی بدترین قسم اور مکمل طور پر اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسلام کسی بھی مذہب کی عبادت گاہ پر حملہ کرنے کی اجازت نہیں دیتا بلکہ اقلیتوں کے تحفظ پر زور دیتا ہے ان کے مطابق یہ حملہ مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان نفرت پھیلانے کی سازش تھا۔[3]پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر مجاہد کامران نے بھی کہا ہے کہ یہ نام نہاد مجاہدین امریکی ایجنٹ تھے ۔ انہوں نے کہا کہ امریکی محققین نے ثابت کردیا ہے کہ القاعدہ، سی آئی اے کا اثاثہ ہے۔[4]
         اس کے علاوہ یہ واضح ہو چکا ہے کہ دیوبندی فرقے کی پارٹی جماعت اسلامی کا طلباء ونگ اسلامی جمعیت طلباء، طالبان اور القاعدہ کی حمایت و حفاظت کرتا ہے۔[5] ان حقائق سے ثابت ہوتا ہے کہ دیوبندی اور وہابی فرقے دہشتگرد ہیں۔ وہ حقیقت جو کہ ایک سنی مسلمان کی وضاحت کرتی ہے وہ کیا ہے؟ وہ تو آقائے دو جہاں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت ہے۔ اور اس میں چاروں مذاہب حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی کے ماننے والے راسخ العقیدہ لوگ چاہے ان میں سے کوئی اشعری ہو یا ماتریدی مسلک کا قائل ہو، سب اہل سنت وجماعت شامل ہیں جو پوری دنیا میں کثرت کے ساتھ موجود ہیں۔ جبکہ وہابی اور دیوبندی لوگوں کے سامنے الصلوٰۃ والسلام علیک یارسول اللہ پڑھا جائے تو ان کے نزدیک یہ شرک ہے، ایسے لوگوں کو سنی کہتے ہوئے میڈیا کو شرم آنی چاہیئے۔

جمعہ، 10 جنوری، 2014

امریکہ کو امریکا کیوں کہا جاتا ہے

سقوط غرناطہ اور امریکہ کی وجہ تسمیہ:
تقریباً  یہ مکمل تحریر وکیپیڈیا سے نقل کی گئی ہے، البتہ انٹرنیٹ پر امیریگو ویسپوچی یا امریکو وسپوچی کا تذکرہ یونی کوڈ اردو میں شاید پہلی بار میں ہی پیش کر رہا ہوں کل اردو وکیپیڈیا پر لکھا تھا اور آج اس اندلسی تاریخ کےاضافے کے ساتھ پیش کررہا ہوں، اس کے لیے میں نے دیگر زبانوں کے وکیپیڈین مضامین سے مواد کا ترجمہ کیا ہے مجھے مغربی لوگوں پر تحقیق سے کوئی خاص دلچسپی نہیں، خصوصاً میں ان کو ہیرو نہیں مانتا اس لئے میں مغرب کی مثالیں کم دیتا ہوں، اس تحریر میں ایک تو امریکہ کے نام کی وجہ تسمیہ اور دوسرا مسلمانوں کی لاشوں پر اپریل فول کا تذکرہ خصوصی اہمیت کا حامل ہے اور میں اسلام کے ان خاص دشمنوں کا سیاہ چہرہ دنیا کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں لیکن یہ تحریر اس سلسلے کی پہلی کڑی ہے، اس میں کچھ خاص جذبات کا اظہار میری طرف سے شامل نہیں، لیکن یار زندہ صحبت باقی، ان شاء اللہ مجھےتاریخ پر بہت کچھ لکھنا ہے

بدھ، 1 جنوری، 2014

انسانی حقوق اور حضرت انسان

اس دور کے حق گو قلم کا روں کایہ المیہ ہے کہ وہ بات کو کہاں سے شروع کریں اور کہا ں سے نہ کریں۔ بے انتہامسائل، بے شمار موضوعات منہ کھولے ذہنوں پرسوار ہیں اور لاکھوں سوال تشنہ لب ہیں جن کے جواب ندارد ہیں۔ یہ مسئلہ صرف حق گو قلم کاروں کے ساتھ ہے ورنہ’’پانی میں مد ھانی ‘‘ تو ہر جگہ ملتی ہے اور اس کے مقاصد بھی کچھ کچھ سمجھ میں آتے ہیں. میں چونکہ روزنامہ نوائے وقت کا ریڈر ہوں اور اس کو دیگر اخبارات سے اچھا بھی سمجھتا ہوں۔ پھر بھی ہفتوں انتظار رہتا ہے کہ کو ئی اچھا کالم پڑھنے کو ملے اب میری اس تنقید سے نجانے پڑھنے والوں یا آگے بتانے والوں اور ان سے سننے والوں کے ذہن میں کیا خیال آئے۔ لیکن مجھے بہت سی باتیں انتہائی افسوس سے لکھنا پڑتی ہیں۔ لکھتے وقت لکھاری کو بہت سے پہلوؤں کا خیال رکھنا پڑتا ہے اور بہت سے طبقوں، حلقو ں اور فرقوں کی ناراضگی کا لحاظ اور پاس رکھنا پڑتا ہے۔ مضمون نگار اور کالم نگار کو پیٹ بھی لگا ہوا ہے جس کا رازق وہ اللہ کے سوا کسی اور کو جانتا ہے اور اُسے اپنے بیوی بچوں کی جان بھی عزیز ہوتی ہے۔ ورنہ کیا بات ہے جوکر نہیں آتی۔ مجھے انسانی حقوق پربحث کرنا تھی لیکن شاید کسی اور طرف نکل گیا۔ نہیں جناب! یہ انسانی حق ہے کہ آپ کے دور کا لکھاری سچ لکھے اورحق بات کو ڈنکے کی چوٹ پر کہے ورنہ بتایا جائے کہ کتنے کالم برما کے مسلمانوں کے حق میں شائع ہوئے۔ کیا وہاں کوئی ’’ملالہ‘‘ نہیں ہے۔ اِدھر ہونٹوں کی لالی ہے اُدھر جان کے لالے ہیں۔ کیا وہاں کوئی ’’بلاول‘‘ یتیم نہیں ہوا۔ اور کیا وہاں کسی ’’آصفہ‘‘نے اپنی والدہ کی یاد میں درد بھری نظم نہیں لکھی