پیر، 30 دسمبر، 2013

مجاہد اعظم جنگ آزادی ہند 1857ء بطل حریت علامہ فضل حق شہید

 میں نے آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا پر ایک طویل مدت میں محنت کرکے یہ تعارف پیش کیا تھا اب یہاں حاضر ہے۔عبدالرزاق قادری

فضل حق خیر آبادی

مجاہد اعظم جنگ آزادی ہند 1857ء بطل حریت علامہ فضل حق شہید (1797ء تا 20 اگست 1861ء) بن مولانا فضل امام خیر آبادی مسلم رہنمائے جنگ علمائے اہل سنت میں سے تھے۔ فضل حق خیر آبادی 1857ءکی جنگ آزادی کے روح رواں تھے۔ وہ ایک فلسفی، ایک شاعر، ایک مذہبی عالم تھے، لیکن ان کے شہرت کی بنیادی وجہ ہندوستان کی جنگ آزادی میں انگریز قبضہ آوروں کے جہاد کا فتوٰی بنا۔

پیدائش

علامہ فضل حق 1797ء کو خیرآباد کے علاقے میں پیدا ہوئے، اعلی تعلیم حاصل کی ،منطق وفلسفہ کی دنیا میں اتھاریٹی تسلیم کئے گئے،تصانیف چھوڑ یں ،بہادر شاہ ظفر کے ساتھ ہندستان کو انگریزوں کے پنجہ ناپاک سے آزاد کرانے کی جان توڑ محنت کی ،عشق ومحبت رسول پر کتابیں لکھیں ،قوانین سازی کی۔ اپنوں کی ستم ظریفیاں اور علامہ فضل حق خیر آبادی چشتی

زندگی

فضل حق خیر آبادی لکھنؤ میں ایک قاضی القضاۃ تھے۔ انگریزوں کے جاسوس گوری شنکر نے 28 اگست 1857ء کی رپورٹ میں لکھا ہے کہ: "مولوی فضلِ حق جب سے دہلی آیا ہے،شہریوں اور فوج کو انگریزوں کے خلاف اُکسانے میں مصروف ہے۔ وہ کہتا پھرتا ہے کہ اس نے آگرہ گزٹ میں برطانوی پارلیمنٹ کا ایک اعلان پڑھا ہے جس میں انگریزی فوج کو دہلی کے تمام باشندوں کو قتل کردینے اور پورے شہر کو مسمارکردینے کے لئے کہا گیا ہے ۔آنے والی نسلوں کو یہ بتانے کے لئے کہ یہاں دہلی کا شہر آباد تھا،شاہی مسجد کا صرف ایک مینار باقی چھوڑا جائے گا"

 (INDIAN OFFICE LONDON, MUTINY COLLECTION NO.170 PP.442-443)

فتوی جہاد

علامہ فضلِ حق خیرآبادی نے جنگ آزادی میں انگریزوں کے عزائم بھانپ لئے تھے۔ جامع مسجد دہلی میں نماز جمعہ کے بعد علما کے سامنے تقریر کی اور اِستِفتاءپیش کیا۔ جس میں انگریز کے خلاف جہاد کے لئے کہا گیا تھا۔ جہاد کے اس فتوے پر مفتی صدرالدین خان، مولوی عبدالقادر، قاضی فیض اللہ، مولانا فیض احمد بدایونی، وزیر خان اکبر آبادی، سید مبارک حسین رامپوری نے دستخط کئے۔ اس فتوے کے جاری ہوتے ہی ہندوستان بھر میں قتال و جدال شروع ہو گیا۔ اُن علما کو اس فتوے کے نتائج و عواقب کا ادراک تھا. علامہ فضل حق خیر آبادی رحمۃ اﷲ علیہ کا جہاد کا فتویٰ جاری کرنا تھا کہ ہندوستان بھر میں انگریز کے خلاف ایک بہت بڑی عظیم لہر دوڑگئی اور گلی گلی، قریہ قریہ، کوچہ کوچہ، بستی بستی، شہر شہر وہ قتال وہ جدال ہوا کہ انگریزحکومت کی چولہیں ہل گئیں۔ مگر آپ جانتے ہیں کہ انگریز بڑا مکار اور خبیث ہے اس نے اپنی تدبیر یں لڑا کر بڑے بڑے لوگوں کو خرید کر اور ڈرا دھمکا کر بے شمار لوگوں کو قتل کرنے کے بعد اس نے تحریک کو کُچل دیا۔ آزادی کی تحریک کوکُچل تودیا مگر حضرت علامہ فضل حق خیر آبادی نے آزادی کا سنگ بنیادرکھ دیا تھا اس کو بظاہر انگریز نے وقتی طور پر کُچل دیا۔ دہلی پر انگریزوں کا قبضہ ہونے کے بعد کسی طرح یہاں سے نکل کرعلامہ فضلِ حق اودھ پہنچے۔ جنوری 1859ء میں آپ کے خلاف بغاوت کا مقدمہ چلا اور کالاپانی کی سزا ہوئی۔ آپ نے اپنا مقدمہ خود لڑا اور عدالت میں کہا کہ: "جہاد کا فتویٰ میرا لکھا ہوا ہے اور میں آج بھی اپنے اس فتویٰ پر قائم ہوں"۔ 1857ء کی جنگ آزادی ناکام ہونے کے بعد ان کو انگریز نے قید کر دیا۔ جب ان کا بیٹا ابو الحق انہیں آزاد کروانے کے لیےپورٹ بلیئر پر 13 فروری 1861ء کو پہنچا لیکن بہت دیر ہو چکی تھی - فضل حق خیر آبادی کو پہلے ہی 12 فروری کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا تھا۔

ادبی خدمات


اسلامیات اور الہیات کے سکالر ہونے کے علاوہ، وہ خاص طور پر اردو، عربی اور فارسی ادب کی بھی ایک ادبی شخصیت تھے علامہ فضل حق خیرآبادی اور ان کے والدِ ماجد مولانا فضل امام خیرآبادی علیہم الرحمہ(وفات ۱۲۴۴ھ/۱۸۲۹ء) دونوں اپنے عہد کے جید عالم اور مشاہیروںر شمار کیے جاتے تھے اور مرجع العلماء والادباء تھے۔ دونوں کی شخصیت حکمت و دانش کے اعتبار سے یگانۂ روزگار تھی ان حضرات کو معقولات مںو جو تبحّر حاصل تھا ، اس کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا مبالغہ آرائی نہ ہو گا کہ وہ یونانی اور اسلامی دورِ عروج کے مفکرین اور حکما کی صف میں شامل کیے جانے کے بلاشبہ قابل ہیں ۔سر سید احمد خان علامہ فضل حق خیرآبادی سے سیاسی و دینی لحاظ سے مختلف الخیال اور جدا جدا عقیدہ رکھتے تھے بل کہ بعض معاملات مں شدید مخالفت بھی کی، لیکن ملاحظہ فرمائیے کہ سر سید کے ذہن و قلب پر علامہ فضل حق خیرآبادی کی حکمت و دانش کے اثرات کتنے گہرے تھے، سر سید لکھتے ہیں : ’’جمیع علوم و فنون میں یکتائے روزگارہیں اور منطق و حکمت کی تو گویا انھیں کی فکرِ عالی نے بِنا ڈالی ہے بارہا دیکھا گیا ہے کہ جو لوگ اپنے آپ کو یگانۂ فن سمجھتے تھے جب ان کی زبان سے ایک حرف سنا، دعوائے کمال کو فراموش کر کے نسبتِ شاگردی کو اپنا فخر سمجھا، بہ ایں کمالات علم و ادب میں ایسا عَلمِ سرفرازی بلند کیا ہے کہ فصاحت کے واسطے ان کی شستۂ محضر عروجِ معارج ہے اور بلاغت کے واسطے ان کی طبعِ رسا دست آویز بلندیِ معارج ہے۔ سحبان کو ان کی فصاحت سے سرمایۂ خوش بیانی اور امراء القیس کو ان کے افکارِ بلند سے دست گاہِ عروج و معانی، الفاظ پاکیزہ ان کے رشکِ گوہرِ خوش آب اور معانی رنگین ان کے غیرتِ لعلِ ناب، سرو ان کی سطورِ عبارت کے آگے پا بہ گِل، اور گُل ان کی عبارتِ رنگںا کے سامنے خجل، نرگس ان کے سواد سے نگاہ ملا دیتی۔ مصحفِ گل کے پڑھنے سے عاجز نہ رہتی۔ اور سوسن اگر ان کی عبارتِ فصیح سے زبان کو آشنا کرتی، صفتِ گویائی سے عاری نہ ہوتی۔‘‘
(سر سید: آثارالصنادید، ص ۲۸۱) حوالہ

بیرونی حوالہ جات

5 تبصرے:

  1. بہت زبردست
    لیکن حد سے زیادہ مختصر اور بے ربط
    اسے دوبارہ مدون کیجیئے
    اور کوشش کریں کہ علامہ صاحب کی کارہائے نمایاں کے ہر پہلو کو کم از کم ہائی لائیٹ ضرور کر دیں
    اور غالب اور مولانا صاحب کے تذکرے میں اس قدر کنجوسی؟؟؟؟؟
    سر سید احمد خان کا ذکر تو کر دیا گیا لیکن مرزا غالب جو مولانا فضل حق کے انتہائی گہرے اور قریبی دوست تھے ان کا ذکر صرف دو الفاظ میں۔۔۔۔؟؟؟؟ یہاں امتناع النظیر کے مسئلے میں مولانا اسمعیل دہلوی اور مولانا فضل حق خیر آبادی کے مناظرے کا تذکرہ بھی ضرور کیجیئے اور پھر مولنا فضل حق کی فرمائش پر جو مثنوی مرزا غالب نے لکھی تھی وہ بھی ضررو تحریر کیجیئے
    اس کے علاوہ مرزا غالب کے کچھ فارسی اشعار مولانا کی شان میں کہے گئے میں وہ بھی آپ کو مہیا کر دوں گا وہ بھی شامل کیجیئے

    البتہ یہ دیوانِ غالب پر مولانا کی نظر ثانی والی بات محض گپ ہے
    جو کہ حالی نے مولانا آزاد سے مستعار لی اور بلا تحقیق لکھ دی
    اس کے بعد اسے سند ہی مان لیا گیا
    جبکہ در حقیقت یہ بات صرف مرزا کی شاعری کا مذاق بنانے کیلئے حاسدوں نے گھڑی تھی

    دعا کا طالب ، فدوی چھوٹا غالب

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. مجھے تو مولانا کے بارے میں ایک ابتدائی تعارف لکھنا تھا سو ادھر اُدھر سے کاپی کرکے وکیپیڈیا پر لکھ دیا۔ لیکن اب اس موضوع پر دستیاب کتب پڑھ کے اور آپ کی آراء سے مستفید ہو کر ہی بہتر مضمون لکھوں گا۔ ان شاءاللہ

      حذف کریں