پیر، 15 جولائی، 2013

روزہ فرض کیوں کیا گیا از قلم مفتی اعظم پاکستان علامہ مولانا محمد ارشد القادری

روزہ فرض کیوں کیا گیا
ظاہر ہے ہر ذی شعور انسان کے ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ روزہ فرض کیوں کیا گیا ہے؟ اس کا جواب، قرآن نے بڑے حکیمانہ انداز میں دیا، اوّلاً تو یہ بیان فرمایا کہ روزہ صرف تم اہل ایمان پر ہی فرض نہیں ہوا بلکہ جو لوگ تم سے پہلے تھے ان پر بھی روزہ فرض تھا، اس کے بعد بتایا گیا کہ ان پر روزہ فرض ہونے اور تم پر روزہ فرض ہونے کی غایت مشترک ہے۔ وہ یہ ہے کہ ان پر روزہ فرض تو اس لئے کیا تھا کہ ان کو پرہیزگار بنا دیا جائے اور اگر تم پر روزہ فرض کیا گیا ہے تو فقط اس لئے کہ تمہیں بھی پرہیزگار و متقی بنا دیا جائے۔ہر انسان چاہتا ہے کہ اس کو راحت ملے، فرحت میسّر آئے اور وہ سدا خوش و خرم رہے، اس کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ دنیا جہاں کی تمام آسائشیں اس کے دامن میں آ جائیں، ان کے حصول کے لئے وہ سخت محنت کرتا ہے، اگر اپنا ملک چھوڑنا پڑے تو وہ بھی چھوڑ دیتا ہے۔ دیّار غیر میں جا بستا ہے صرف اس لئے اس کو دنیوی راحتیں مل جائیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مسلمانوں پر روزہ اس لئے فرض کیا گیا ہے کہ ان لوگوں کو تقوٰی کی دولت مل جائے یقیناً تقوٰی کی دولت سب دولتوں سے بڑی دولت ہے۔ ایک اور جگہ ارشاد فرمایا:
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًی لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰی وَ الْفُرْقَانِ ۚ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْیَصُمْهُ ؕ وَ مَنْ كَانَ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ ؕ (القرآن،البقرہ ۲: ۱۸۵)
رمضان کا مہینہ جس میں قرآن اترا لوگوں کے لئے ہدایت اور رہنمائی اور فیصلہ کی روشن باتیں تو تم میں جو کوئی یہ مہینہ پائے ضرور اس کے روزے رکھے اور جو بیمار یا سفر میں ہو تو اتنے روزے اور دنوں میں رکھے۔
آیتِ مذکورہ میں جو کچھ بیان ہوااس آیت مقدس میں بڑی صراحت کے ساتھ، چند اہم باتوں کا تذکرہ فرمایا گیا ہے۔ جن کی ترتیب یہ ہے:۱۔ ماہِ رمضان المبارک کا نام لے کر ذکر کیا گیا۔۲۔ قرآن لوگوں کے لئے سراسر ہدایت اور روشن دلیل ہے۔۳۔ حق و باطل کے درمیان واضح فرق۔۴۔ تم میں سے جو کوئی ماہِ رمضان پائے وہ اس کے روزے رکھے۔۵۔ مریض و مسافر کے لئے چھوٹ لیکن دوسرے دنوں میں گنتی پوری کرے۔اس میں کوئی شک نہیں قرآن حکیم ہی ایک ایسی کتاب ہے جو انسانیت کے لئے سب سے بڑی خیرخواہی اور حکمت اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ اس کا ایک ایک لفظ اور ایک ایک جملہ یعنی آیت اپنے اندر اَن گنت اسرار و رموز رکھتی ہے۔ ہر زمانے میں صاحبانِ علم و فن اپنی اپنی استعداد کے مطابق اس سے گوہر نایاب تلاش کرتے رہتے ہیں۔ جتنا بڑا کوئی خواص ہو گا اسی قدر عمدہ موتی تلاش کر کے لائے گا۔ ربّ کریم اہل علم کی عمروں میں برکتیں عطا فرمائے، علمائے حق کا سایہ تا دیر ہمارے سروں پر قائم رکھے آمین!لفظِ رمضان کی تحقیق لُغویمناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس لفظ ’’رَمَضَانُ‘‘ کا تلفظ بھی ذکر کروں اور اس کے معنیٰ پر بھی روشنی ڈال دوں تاکہ اس حوالے سے ایک تحقیق سامنے آ جائے۔ ان شاء اللہ اس سے تمام صاحبان علم و فضل خوش ہوں گے اور قارئین کے لئے ایک نئی طرح ہو گی۔ چنانچہ اس لفظ کا تلفظ (Pronunciation) رَمَضَاَنْ ہے۔ لغت کی کتب میں مذکور ہے۔رَمَضَانُ! کا مطلب ہے گرمی کی تیزی، دھوپ کی شدت نیز گرمی کی شدت اور دھوپ کی حدّت کے سبب زمین کا تپ جانا۔ (المنجد ۴۰۸)اس سے بڑی آسانی کے ساتھ سمجھ آتا ہے کہ رمضان کا مطلب ہے۔ اس مہینے کی مشقت اہل اسلام کو خوب، آزماتی ہے، بعینہٖ جیسے دھوپ کی حدّت زمین کو تپا دیتی ہے اسی طرح رمضان بھی آ کر اپنے ماننے والوں پر شدت کر کے انہیں تپا دیتا ہے لیکن اہل ایمان اس آزمائش میں سے بڑے صبر و استقامت کے ساتھ گذر جاتے ہیں انہیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ مہینہ ہمارے لئے آزمائش تو ہے لیکن انعام بھی بہت بڑا ہو گا۔ اگر کوئی بندۂ مؤمن اس مہینے کی شدّت برداشت کر لیتا ہے تو ربّ کائنات اس کی بخشش و مغفرت کا اعلان فرما دیتا ہے جیسا کہ احادیث صحیحہ کا مضمون ہے۔ جس مسلمان نے حالت ایمان میں طلبِ ثواب کے لئے روزے رکھے اللہ تعالیٰ اس کے سابقہ گناہوں کو معاف فرما دے گا۔
حدیث شریف کے الفاظ یہ ہیں:
مَنْ صَامَ رَمَضَانَ اِیْمَانًا وَ اِحْتِسَابًا غُفِرَلَہٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ
جس نے رمضان کا ایمان و ایقان سے روزہ رکھا اس کے سابقہ گناہ بخش دیئے گئے۔
قرآن میں صرف ماہِ رمضان کا نام آیا ہے
قرآن حکیم نے رمضان المبارک کے علاوہ کسی مہینے کا نام نہیں لیا، یہ کتنا بڑا انعام ربّانی ہے کہ خالقِ کائنات نے ماہِ رمضان کا نام لے کر اس کی اہمیت کو خوب بڑھایا۔ اس سے اس مہینے کی عظمت بیّن ہوتی ہے۔قرآن کریم میں کسی اور عورت کا نام نہیں آیا لیکن حضرت مریم علیہا السلام کو یہ شرف حاصل ہے کہ ان کا نام قرآن مجید میں آیا ہے۔ اسی طرح قرآن حکیم میں کسی اور صحابی کا نام نہیں آیا مگر یہ شرف حضرت زید رضی اللہ عنہ کو حاصل ہے کہ ان کا نام قرآن میں سورہ احزاب میں آیا ہے۔ بارہ مہینوں میں سے کسی مہینے کا ذکر نام کے ساتھ قرآن شریف میں نہیں آیا لیکن رمضان المبارک کو یہ مقام حاصل ہے کہ اس کا نام قرآن مقدس میں آیا ہے۔رمضان المبارک میں ایک نیکی کا ثواب ستّر گنا بڑھ جاتا ہےاس سے اندازہ لگایا جا سکتاہے کہ یہ مہینہ کتنا بابرکت ہے کہ اس کو نام لے کر قرآن پاک میں ذکر کیا گیا ہے۔ اس سے اس مہینے کی عظمت کا پتہ چلتا ہے۔ لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہئے یوں تو وہ تمام مہینوں میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کریں، نمازیں پڑھیں، تلاوت کریں، نیز نیک کام بڑھ چڑھ کر کریں لیکن اس ماہ اقدس رمضان المبارک میں تو خوب اللہ تعالیٰ کی یاد کریں۔ نمازوں کی پابندی کریں تاکہ دوسرے تمام مہینوں میں بھی نماز کی پابندی عادت بن جائے۔ نیکی کو دائمی کریں تاکہ سارا سال نیکی کرنا عادت بن جائے یقیناًاس مہینے کی بڑی برکات ہیں۔ اس میں اگر کوئی بندۂ مؤمن ایک نیکی کرتا ہے تو اس کو ستّر نیکیوں کا ثواب دیا جاتا ہے اگر کوئی بندہ اس ماہ میں ایک روپیہ خیرات کرتا ہے تو اس کو ستّر روپے خیرات کرنے کے برابر ثواب دیا جاتا ہے۔ ایک نفل کا ثواب ایک فرض کے برابر کر دیا جاتا ہے۔ رحمت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، جنّت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، دوزخ کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں، ان شاء اللہ تفصیلی احادیث مبارکہ بھی ذکر کروں گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ماہِ صیام بڑا ہی بابرکت مہینہ ہے، اس کی جس قدر ہو سکے تعظیم کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ توفیق عمل عطا فرمائے۔ امین۔