جمعرات، 27 جون، 2013

سدا ای وسدا رہنا ڈیرہ داتا دا

از قلم عبدالرزاق قادری
جیسا کہ میری پچھلی تحریروں سے ظاہر ہے کہ میں 12 اگست سن 2000 عیسوی ہفتے کی شام ساڑھے نو بجے لاہور آیا۔ ریلوے سٹیشن سے تانگے پر  بیٹھ کر داتا دربار تک آگئے۔ یہ میرا ریلوے کا  اور  فیصل آباد سےلاہور تک کا پہلا سفر تھا۔ مجھے راتوں رات ہی دربار دیکھ لینے کا شوق تھا لیکن اگلے دن یہ سعادت نصیب ہوئی۔
ان تیرہ سالوں میں دوبار درندوں نے اس مقدس درگاہ کی بے حرمتی کرنے کی کوشش کی۔ پہلی بار پرویز مشرف کے دور میں 2001 میں ایک پولیس افسر کلب عباس کی پولیس جوتوں سمیت مسجد اور دربار کے احاطے میں گھس گئی اور ایک سیمینار کے حاضرین پر دھاوا بولنے کے علاوہ دربار کے احاطے میں قرآن پڑھتے لوگوں پر بھی لاٹھی چارج کیا۔ اور دوسری بار سن 2010 میں بد بختوں نے داتا دربار پر بم دھماکے کر دئیے۔ یہ جولائی کی یکم تاریخ تھی۔ پھر یہ جولائی پورے ملک میں امن سے خالی گزرا۔ اس انتہا کی دہشت گردی اور سفاکی کا مظاہرہ کرنے والوں کے ماسٹر مائنڈ  ٹولے کے جذبات اور اقدامات چڑھے سورج کی طرح انٹرنیٹ پر موجود ہیں۔ ان کی وڈیوز دیکھ کر بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ جہنمی ٹولہ جو یہودی لابی کی "ایڈ" پر پلتا ہے کیا کیا ارادے رکھتا ہے۔ ان سفاکانہ دھماکوں کو تین سال مکمل ہو رہے ہیں۔ اور کروڑوں عقیدت مند آج تک عدل کی زنجیر کا منہ تاک رہے ہیں۔ مجرموں کا گرفتار نہ ہونا حکومتی رٹ ختم ہوجانے کے مترادف ہے۔ آنے والے کل کا مؤرخ کیا لکھے گا کہ اسلام کے نام پر قائم ہونے والی مملکت میں اسلام  کے مراکز اور درگاہیں تک محفوظ نہ تھیں۔ اور ان کی حرمت کے دشمن کھلے عام دندناتے پھرتے تھے؟ اس بات سے سب آگاہ ہیں کہ داتا دربار کی حرمت کے دشمن وہی لوگ ہوسکتے ہیں جو وہاں حاضری دینے والے مسلمانوں کو مشرک کہتے ہین۔ تاہم، حکومتی ادارے ان لوگوں کے خلاف تادیبی کارروائی کرنے سے گریزاں ہیں۔ نجانے ادارے کسی خوف میں ہیں یا ان کے اپنے کچھ خاص مقاصد/تعلقات ان دہشت گرد گروہوں سے ہیں۔ بہرحال سفاکی اور بزدلی ایک ہی برائی کے دو نام ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسے سفاک بزدلوں اور ان کے پشت پناہوں کو دردناک عذاب سے ہمکنا کرے گا کیونکہ ان درندوں  نے اللہ کے ولی سے دشمنی مول لی ہے اور حدیث پاک کے مطابق اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے خلاف اعلان جنگ کرتا ہے۔ میں نے ایک بار کہیں پڑھا تھا کہ ایک مغل بادشاہ نے وصیت کی تھی کہ اسےداتا دربار کی سیڑھیو ں میں دفن کیا جائے۔ اس دور میں وہ سیڑھیاں مشرقی جانب ہوتی تھیں۔  اس تحریر کے مطابق جہاں چند سال پہلے تک چراغ رکھے جاتے تھے ان سے پہلے یہ سیڑھیاں تھیں۔ بعد کی توسیعات نے نقشے میں تبدیلیاں وضع کیں۔ اگر آپ داتا دربار کا بغور دورہ کریں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ بہت سے بادشاہوں اور امراء نے یہاں سلام کیا اور اس درگاہ کی تعمیر و توسیع میں اپنا حصہ ڈالا۔ کہیں آپ کو گورنر اختر حسین کا نام نظر آئے گا تو کہیں ذوالفقار علی بھٹو کا۔ کہیں ضیاءالحق کا نام تو کہیں میاں محمد نواز شریف کا نام نظر آئے گا۔  کہیں اسحاق ڈار کا نام تو کہیں مولوی فیروز دین(فیروز سنز والے) کا نام۔ ان تعمیرات کی تاریخ جاننا مقصود ہو تو ڈاکٹر غافر شہزاد کی کتب دیکھیں۔ ان معلومات پر کئی پی۔ایچ-ڈی کے مقالہ جات لکھے جا سکتے ہیں۔ یہ وہ مقام ہے جہاں بادشاہوں کے سر جھکے۔ یہاں اربوں لوگ حاضری دیتے رہے۔ ان کا دشمن بے نام ونشان اور ناکام رہا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کا نام سربلند کر کے خلق کے دلوں میں ان کی عقیدت ڈال دی۔