جمعہ، 31 مئی، 2013

پروفیسر ہی جب آتے ہوں ہفتہ وار کالج میں

پروفیسر ہی جب آتے ہوں ہفتہ وار کالج میں
تو اونچا کیوں نہ ہو تعلیم کا معیار کالج میں


کچھ ایسے بھی پڑھاکو پنچھیوں کو ہم نے دیکھا ہے
کہ پر دفتر میں، پنجے شہر میں، منقار کالج میں


اگرچہ دوسرے مشروب بھی مہنگے نہیں ملتے
مگر چلتا ہے اکثر شربتِ دیدار کالج میں


وہ ڈگری کی بجائے میم لے کر لوٹ آیا ہے
ملا تھا داخلہ جس کو سمندر پار کالج میں


مجھے ڈر ہے کہ ہم دونوں کہیں سمدھی نہ بن جائیں
تری گلنار کالج میں میرا گلزار کالج میں



(ڈاکٹر انعام الحق جاوید)

منگل، 28 مئی، 2013

E learning Holy Quran on facebook

ای لرننگ ہولی قرآن،  آن لائن قرآنی اور اسلامی تعلیمات کے لئے ایک بین الاقوامی ادارہ ہے ہم نے اسے خصوصاً   ان لوگوں کے لئے قائم کیا ہے جو لوگ خود کو اور اپنے  بچوں کو قرآن اور اسلام کے زیور تعلیم سے آراستہ کرنا چاہتے۔ ہم نے قرآن اور بنیادی اسلامی تعلیم سکھانے کے لئے ایک جامع نصاب تیار کیا ہے۔ ای لرننگ ہولی قرآن  ایسے قابل اساتذہ کو ترجیح دیتا ہے  جو معاشرے کے تمام طبقات سے تعلق رکھنے والے طلباء کوبہتر انداز میں تعلیم دے سکتےہیں ۔ ہم  اپنے طلباء کو تعلیم کا اعلی ترین معیار اور بین الاقوامی معیار فراہم کرنے کے لئے مصروف عمل ہیں۔ ان شاءاللہ، ہمارا  تدریسی عملہ امتیازی خصوصیات کا حامل ہو گا۔ الحمدللہ! ہم نے متعلقہ شعبوں میں مہارت کے ساتھ انتہائی قابل اساتذہ کی مدد اور حمایت حاصل کی ہے۔تجوید یا صحیح تلفظ کی تعلیم ہماری پہلی ترجیح ہے اور ہم نے اس مقصد کے لئے، اچھی طرح سے تربیت یافتہ اساتذہ کی خدمات حاصل کی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم  تعلیمات  کے سلسلے میں قرآن (تفسیر) اور جدید اسلامی فقہ کے ماہرین علماء کرام سے رائے لینے کے لیے رابطے میں رہتے ہیں۔

ہم ہی کیوں؟

ہم دوسروں سے بیشتر امتیازات وصفات کی وجہ سے مختلف ہیں۔ سب سے پہلے، ہمارے تدریسی عملے کی خاصیت ہے وہ ان شعبوں میں نہ صرف اچھی ماہر ہیں بلکہ  ہمارے اساتذہ ایک اچھا تربیتی پس منظر بھی رکھتے ہیں۔ دوسرے، ہم نہ صرف قرآن مجید کے عربی متن تک محدود ہیں بلکہ عربی زبان، ترجمہ اور قرآن کی تفسیر اور بہت سے دینی مسائل نمٹانے کے لیے آسان تفہیم بھی پیش کرتے  ہیں۔  ہم قرآن مجید کی تعلیم بہترین انداز میں مہیا کرتے ہوئے تمام خواہشمند طالب علموں کو ایک آسان اور سب سے کم فیس پیکیج آفر کرتے ہیں۔

ہمارا عملہ

ہمارے اساتذہ جو کہ اعلی سطح کے محنتی افراد ہیں بہترین نتائج پیدا کرنے کے لئے ایک دوستانہ ماحول میں ایک طالب علم کے ساتھ آسانی سے ربط رکھنے کے ساتھ ساتھ بہترین طریقے سے تعلیم دینا جانتے ہیں۔
اساتذہ میں سے زیادہ تر ان کوائف کے حامل  ہیں
٭ حافظ القرآن (مکمل قرآن مجید کے حافظ ہیں)
٭  تلاوت کے قوانین سے اچھی طرح واقف
٭ اسلامک اسٹڈیز میں یونیورسٹی سے فارغ التحصیل
٭ قرآن اور اردو/انگریزی آن لائن سکھانے کے لئے تربیت حاصل کی
٭  انہیں طالب علموں کے ساتھ بات چیت کرنے اور لیکچر فراہم کرنے کے لئے انگریزی، عربی اور اردو زبانوں پر بہترین کمانڈ ہے
٭ وہ انتہائی حوصلہ افزا اور اس پیشے میں درپیش پیچیدگیوں کو سمجھتے ہیں اور  زیادہ سے زیادہ بہتر نتائج کے لئے پرامید ہیں
ہم اپنے طالب علموں سے امید کرتے ہیں کہ وہ ہمارے بعد دنیا کوقرآن کے نور سے منور  کرنے کے لیے  علم کی شمع تھامے ہوئےہوں۔

جمعہ، 17 مئی، 2013

امام احمد رضا خان قادری بریلوی کی عالمی اہمیت از: انگریز نو مسلم ڈاکٹر محمد ہارون انگلینڈ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان ہندوستان کے معروف سنی عالم تھے۔ وہ 1856ء میں پیدا ہوئے۔ اور 1921ء میں انہوں نے وصال فرمایا۔ وہ اپنے دور میں اہلسنت کے امام تھے- اور اس قدر عظیم تھے کہ انہیں اسلامی صدی کے مجدد کے لقب سے پکارا گیا۔ اسلامی صدی کا مجدد وہ ہوتا ہے جو اپنے دور کے تمام لوگوں میں اہم ترین شخصیت ہو۔ پہلی صدیوں کے مجدد دین امام غزالی علیہ الرحمہ کی طرح کے لوگ تھے- جنہوں نے اپنے زمانے میں عظیم ترین اہمیت کے مراتب حاصل کئے مثلاً امام غزالی وہ شخصیت ہیں جن سے یورپ نے فلسفہ سیکھا ۔ اس مقالے کا مقصد تمام دنیا کے لئے امام احمد رضا بریلوی کی تعلیمات و نظریات کی اہمیت واضح کرنا ہے۔ کوئی بھی شخص دنیا بھر کے لئے اہم ہوتا ہے اگر اس کے یہاں اپنے دور کے اہم ترین مسائل کا حل موجود ہو ۔ کارل مارکس یالینن عالمی اہمیت کے حامل سمجھے جاتے تھے کیونکہ ان کے افکار و نظریات تمام انسانیت کی رہنمائی کرتے محسوس ہوتے تھے۔ اس مقالے میں ہم ثابت کریں گے کہ امام احمد رضا نے اپنے افکار و تعلیمات سے اس صدی کے اہم ترین مسائل کا حل پیش فرمایا ہے۔ ہماری صدی بھی امام احمد رضا کی صدی ہے

بدھ، 15 مئی، 2013

Parah 01 Tajweedi Quran 4 Color Coded 16 Lines ELearningHolyQuran Surah Al Baqarah, Al-Fatiha

Download Free Complete Quran 16 Lines Tajweedi Hafizi Four Color Coded Like Taj Company Ltd.
                E-Learning Holy Quran is going to humbly present four Color Holy Quran file (Look-Alike Taj company's 16 lines Quran) for online users to download it free of cost and study the Holy Quran. The File is 229 MBs (MegaBytes) in weight To download please Click on following link 16 Line Tajweedi Quran 4 Color Coded in single PDF file Download Free 229 MBs

____________________________________

Quran 16 Lines Taj Company in pdf Download Free Black and white








قرآن ترجمہ۔ کنز الایمان۔ اعلی حضرت امام احمد رضا خان بریلوی


جمعہ، 10 مئی، 2013

Vote Do Election May 11, 2013

ووٹ دو
جہالت کو ووٹ دو (سب پرانی اور نئی تعلیمی حکمت عملیاں ہمارے سامنے ہیں)
غربت کو ووٹ دو(محتاج تشریح نہیں)
مہنگائی کو ووٹ دو(بوتل سے باہر بے قابو رہنے والا جن)
ظلم کو ووٹ دو
لوٹ مار کو ووٹ دو
بند بجلی کو ووٹ دو
بند پانی کو ووٹ دو(نہری اور شہری دونوں)
سیلاب کو ووٹ دو تاکہ کوئی کالا باغ ڈیم نہ بنائے(یاد رہے میری معلومات کے مطابق کسی پارٹی کے منشور میں کالا باغ ڈیم نہیں)
ٹارگٹ کلنگ کو ووٹ دو
دہشت گردی کو ووٹ دو(سیاست دانوں کی اپنی بغل میں دہشت گرد تنظیموں کے کارندے ہوتے ہیں)
بھتہ خوری کو ووٹ دو
تاکہ وہی لٹیرے پھر سے اپنا کاروبار چمکا سکیں اور عوام کا خون پی سکیں۔
نوٹ: پاکستان مرغی دھرنا پارٹی سے راقم کا کوئی لینا دینا نہیں
پاکستان مسلم لیگ (نواز) کے صدر میاں محمد نواز شریف کا انٹرویو  نئے حکومتی اتحاد کا شاخسانہ
9 مئی 2013 پی ٹی وی پر پ۔جے۔میر کے ساتھ
"میں اور عمران اکٹھے کھیلتے رہے ۔انار کا جوس پیتے رہے لبرٹی چوک میں۔ منشور پر کسی سے بھی سمجھوتہ کر سکتے ہیں۔  پاکستان کے لیے دست تعاون پھیلائیں گے دوسری پارٹیوں کے سامنے۔ نہ غیبت کریں گے نہ چغلی کریں گے۔ وغیرہ وغیرہ"
مجھے آج کل  "نیا قانون"   از سعادت حسن منٹو اور "قانون بنایا جائے گا"  اور " پاکستان کے سیاستدان" از ساغر صدیقی شدت سے یاد آتے ہیں۔
عید میلاد النبی کا جوش و خروش اگر بدعت ہے تو الیکشن کا شور و غوغا بدعت کیوں نہیں؟
حل مجھے معلوم نہیں ۔  آپ خود بتائیں

پیر، 6 مئی، 2013

خو اہشات نفس اور توبہ

از قلم
عبدالرزاق قادری 
انسانی خو اہشات ختم نہیں ہو تیں ۔جب انسان خواہشوں کے پیچھے بھاگنا شروع کر دے تو کہا جاتا ہے کہ یہ بندہ نفس کا غلا م بن گیا ہے ۔ بزرگوں نے نفس کی تین مختلف ناموں سے تقسیم بتائی ہے ۔ جب کوئی بندہ اپنے نفس کے کہنے پر بُرے کام کرنا شروع کر دیتا ہے اور حیا کھو دیتا ہے ۔ تو اس کے ایمان میں کمی واقع ہو نا شروع ہو جاتی ہے ۔ کیونکہ حیا ہی وہ پر دہ ہے جو ایمان کو ڈھانپ کر رکھتا ہے۔ بے حیائی میں انسان وہ حرکتیں بھی کر بیٹھتا ہے جن کی اخلا قیات اجازت نہیں دیتی ۔ پھر وہ ان بُرے کاموں میں مزید پھنستا چلا جاتا ہے ۔ خیال یہ ہو تا ہے کہ میں مستقل طو ر پر تو ان بُرے کاموں کو نہیں اپناؤں گا ۔ بس گھڑی دو گھڑی کا شُغل میلہ بنایا ہو اہے ۔ درحقیقت نفسانی خو اہشات کی غلا می اختیار کر کے اللہ کی تو فیق کے بغیر ان سے باز آجانا ناممکن ہے اور اللہ کی طرف سے ہدایت تو اُسی بندے کو ملے گی جو ہدایت پانا چاہتا ہے اور جو بندہ ہدایت پانا ہی نہ چاہتا ہو اس کے نفس کو نفس اَمارہ کہاجاتا ہے ۔ نفس امارہ وہ حالت ہے جو انسان کو صرف برائی کے کاموں کی طرف راغب کرتی ہے ۔ انسان کو اس حالت میں گناہ کرنے کے بعد بھی شرمندگی نہیں ہوتی ۔ وہ اپنے جرم کا علی الا علان اقرار کر کے فخر بھی کر تا ہے اور خو د کو دوسروں سے زیادہ قدرت والا سمجھتا ہے اس کے ذہن میں یہ خیال ہوتا ہے کہ میں جو چاہوں کر سکتا ہوں ۔ میں کسی سے نہیں ڈرتا۔ مجھے کسی چیز کی بند ش نہیں۔ وہ بندہ اخلاق ، معاشرہ ، مذہب اور قانون کا باغی بن جاتا ہے ۔ اللہ عز وجل بڑی شان والا ہے ۔ وہ چاہے تو اُ سے بھی ہدایت عطا کر دے اگر ایسے بندے کے دل میں کبھی بھی کسی وجہ سے متاثر ہو کر خد ا کا خو ف آجائے تو اس کی کایا پلٹ سکتی ہے اور پھر وہ عام لو گوں سے بھی بہترین شخص بن جانے کی کو شش کرتا ہے ۔ جس طرح غو ث اعظم سید عبدالقادر جیلا نی ؒ کے قافلے کو لوٹنے والے وہ ڈاکو توبہ کر گئے وہ دنیا کے اعلی انسان بن گئے اس طرح کے واقعات سے تاریخ انسانی بھر ی پڑی ہے۔ جس طرح شیخ ہندی سرکار ؒ کی کایا پلٹ گئی تھی اور وہ لو گوں کے لیے راہ نما بن گئے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اجتماع میں سے ایک بندے کی دل ہی دل میں خفیہ تو بہ کی وجہ سے پوری بستی پر اللہ کی رحمت بر س پڑی اور ایک لمبے عرصے سے رُکی ہوئی بارش برس گئی ۔ یہ کچھ مثالیں وہ تھیں جن میں ہم یہ کہتے ہیں کہ نفس امارہ کا شکار بندہ اس طرح کے معاملا ت میں ملو ث ہوتا ہے ۔ لیکن اللہ عزوجل تو اس کا رب ہے جو اپنی ساری مخلوق سے بہت پیار کرتا ہے اللہ کی رحمت اس بات کا انتظار کرتی ہے کہ کب کوئی بھولا بھٹکا واپس آجائے ۔ کیونکہ اللہ کی طرف سے واپسی کا دروازہ بند نہیں ہے۔ تو بہ کرنے کی نو بت کسی انسان کی زندگی میں کسی پل بھی آسکتی ہے ۔ ہم بے شمار ایسے واقعات سنتے ہیں کہ کسی بندے نے برائیوں سے تو بہ کی اور نیک انسان بن گیا ۔ پھر عرصے کے بعد وہ فو ت ہوا تو کبھی کسی کے خو اب میں نظر آیا تو پو چھنے پر بتایا کہ میں تو بہ کرنے کی وجہ سے بخشا گیا۔ لیکن یاد رہے جب ہم پر حقیقت آشکار ہو جاتی ہے تو اس کے فورا بعد توبہ نہ کرنا بھی شیطان اور نفس کا ایک حملہ ہوتا ہے ۔ جو مثالیں پہلے بیان ہوئیں ان میں خصوصیت یہ تھی کہ وہ لو گ پہلے حق بات کو جانتے نہیں تھے ۔ لیکن جس دن آنکھوں کے سامنے سے پر دہ ہٹ گیا وہ لو گ فورا تائب ہو گئے اور اپنے حقیقی خالق و مالک کے شکر گزار بندے بن گئے کہ اس مالک و مولیٰ نے انہیں ہدایت کی روشنی عطاکی۔ پھر وہ لوگ کبھی بھی گناہ کے قریب نہ پھٹکے اور دنیا کی رنگینیوں میں نہ بھٹکے ۔ اگر کبھی نفس و شیطان کا حملہ کسی خیال کی صورت میں ذہن میں آبھی گیا تو فورا اللہ سے رُجو ع کیا اور اسی کی پنا ہ مانگی۔ صرف کسی غلط خیال کے آجانے پر بھی توبہ کرتے رہے اور استغفار کا دامن نہ چھوڑا پھر وہ لو گ زمانے کے لیے مثال بن گئے اور زمانہ ان سے فیض یاب ہونے لگا ۔ نفس امارہ کے جال سے نکلنے کے لیے اللہ کی ہدایت و توفیق کی ضرورت ہوتی ہے اور ظاہر ہے کہ یہ پیغام اُس بندے تک کسی ذریعہ سے ہی آسکتا ہے ۔ چاہے وہ کوئی تحریر ہو یا تقریر ہو ۔ وہ بندہ قرآن پاک کی کسی آیت کو سن کر غورو فکر کرنے لگے یا کوئی حدیث پاک سن کر یا پڑھ کر دل کی دنیا بدل جائے اور قسمت سنور جائے یاکسی اللہ والے بزرگ کے کسی قو ل یا فعل سے متاثر ہو کر راہ ہدایت کا متلاشی بن جائے یا کسی اچھے انسان کے اخلاق سے متاثر ہو کر اپنا رویہ تبدیل کرلے یا کسی مردِ درویش کی نگاہ کیمیا اثر کا کمال ہو جائے۔ بہر حال انسان کے لیے ہدایت کا راستہ تمام عمر کھلا رہتا ہے ۔ ہاں موت واقع ہو جانے کے بعد تو بہ کا راستہ بند ہو جاتاہے۔ لیکن یادرکھا جائے جن لو گوں تک حق بات پہنچ چکی ہے وہ کبھی بھی اس انتظار میں نہ بیٹھے رہیں کہ وہ آخر ی عمر میں توبہ کر لیں گے ۔ کیونکہ اس بات کی تو کسی کو خبر نہیں کہ اس کی عمر کا آخری حصہ کون ساہے ۔ بلکہ جن لو گوں کی مثالیں بیان کی جاتی ہیں پہلے وہ اس ہدایت کے نور سے دور تھے ۔ جیسے ہی دل سے پر دے ہٹ گئے انہوں نے حق کو قبول کرلیا اور بقیہ تمام عمر اس کرم نوازی کا شکر ادا کرتے رہے کہ حق تعالیٰ نے ان کو نیکی کی راہ پر لگا دیا اور برائیوں کی دلدل سے باہر نکال لیا۔ جبکہ تمام لو گوں کا معاملہ تو اس طرح نہیں ہو تا بلکہ اکثر لو گ ساری حقیقت حال سے واقفیت رکھنے کے باوجو د بے خبری میں وقت ضائع کر تے رہے ہیں۔ حالا نکہ ہمیں چاہیے کہ کل سے آج بھلی۔ اپنے پیار کرنے والے رحیم و کریم اللہ کے حضور آج ہی کیوں نہ جھک جائیں۔ جب ہمیں دنیا میں ہر طر ف سے بے وفائی کا سامنا کر نا پڑتا ہے ۔ جن سے بہت امید یں ہوتی ہیں وہ بہت قریبی لو گ بھی دغا دے جاتے ہیں تو ایسے مایوسی کے عالم میں اپنے حقیقی مالک کے ہاں جاکر اپنا دُکھڑا کیوں نہ روئیں اس کی بارگاہ میںآنسو بہاکر اپنے دل کے بوجھ کو کیوں نہ ہلکا کرلیں۔ اگر دنیا کے لوگوں کے سامنے روپیٹ کر اپنا حال زار بیان کریں گے تو لو گ بجائے ہم دردی کے مذاق اُ ڑائیں گے ۔ تو کیوں نہ پھر پیارے بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے کو اپنا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مطہرہ پر عمل پیرا ہوتے ہوئے رات کے کسی پہر کسی اندھیرے کمرے میں اپنے اللہ سے رو رو کر اپنے گناہوں کی معافی چاہیں اور اس کی کریم ذات کے لطف و کرم کو اپنے قریب محسوس کریں۔
اور اتنی زیادہ اپنائیت کا احسا س ہونے کے بعد آئندہ کے لیے گناہوں سے باز آجانے کا عہد کر لیں۔ جب ہم اس طرح کے عمل سے گزریں تو ہمیں شدید قسم کا احساس ہو گا کہ اللہ نے واقعی ہماری دعا سن لی ہے اور اسی کرم کی وجہ سے ہمارا دل اطمینان محسو س کر رہا ہے کیونکہ دلوں کو اطمینا ن تو صرف للہ کے ذکر ہی سے ملتا ہے ۔ جب ہمیں اپنے پرو ردگار سے اپنی توبہ کی قبولیت کا یقین آجائے گا تو ہم ہمارے اندر یہ احساس پیدا ہو جائے گا کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر جگہ ہمیں دیکھ رہا ہے اور ہمیں اسی پر توکل کر نے کی ضرورت ہے تو پھر جب ہم کوئی ارادہ کیا کریں گے تو اللہ عزوجل کی توفیق کو ہمہ وقت ساتھ ساتھ سمجھنا شروع کر دیں گے۔ ہم خو د کو بہت اعلی و ارفع کہنے سے بازرہیں گے۔ پھر بازار میں، دکان میں، سکو ل میں، دفتر میں ، فیکٹری میں ، کھیت میں ، کھلیان میں ، سفر میں ، قیام میں ، تنہائی میں اور محفل میں ہوں گے توا للہ ہی کو سب سے بڑا سمجھیں گے ۔ اسی کی شان بے نیازی کو سامنے رکھتے ہوئے شیخی نہیں بگھاریں گے۔ ہم لو گوں میں عاجزی والا رویہ ظاہر کریں گے ۔جب ہم عاجز اور روا دار بندے بن جائیں گے تو ہمیں اس کے بے شمار فوائد نظر آئیں گے ۔ جتنا انسان اندرسے عاجز ہوتا جاتاہے ۔ دوسر وں کی نظر میں وہ اتنا ہی معتبر اور اچھا انسان بن جاتا ہے ۔ لیکن اُسے چاہیے کہ وہ اس مقام پر بھی خو د کو مزید جھکا دے ۔ ان نرم رویوں کی بدولت انسان اپنی زندگی کے معاملا ت درست کرنے کی کو شش کرتا ہے ۔ کہ کہیں کسی کا کوئی حق نہ مارا جائے اور کہیں کسی کو سخت الفاظ سے کوئی بات نہ کہہ بیٹھوں اس کے پیش نظر اپنے خالق حقیقی کی رضا ہوتی ہے ۔ 
وہ کسی انسان کو ، دکھ پہنچا کر اپنے رب کو ناراض نہیں کرنا چاہتا۔ اسی سے اس کی روح کو سکو ن نصیب ہو تا ہے ۔ جب وہ اللہ کو ناراض کرنے سے ڈرنے لگتا ہے تو یہی وہ مقام ہو تا ہے۔ جب وہ متقی بن جاتا ہے ۔ خو ف خد ا ہی حقیقتا تقوی ہے ۔ اسی تقوی کی وجہ سے وہ انسانوں کے تمام حقوق پورے کرنے کی کو شش کرتاہے اور جانوروں کے بھی حتی کہ پو دوں کے بھی حقوق پورے کرتا ہے کیونکہ اسلام ہمیں پو دوں کے حقوق بھی سکھاتا ہے۔ پھر وہ متقی بندہ اللہ کا شکر ادا کرنے کی خاطر مسجد کارخ کرتا ہے اور دن میں پانچ بار اللہ کی بارگاہ میں حاضری دیتا ہے کہ اس نے اُسے گناہوں کے گھٹا ٹو پ اندھیروں سے نکال کر ہدایت کی روشنی نصیب کی ۔ پھر وہ زکوۃ ادا کرکے حقوق العباد اور حقو ق اللہ کے فرائض بیک وقت بحا لاتا ہے ۔ 
یہی متقی لو گوں کی نشانیاں ہیں وہ لو گ اللہ تعالیٰ پر غیب سے یقین رکھتے ہیں ۔کیونکہ اُنہیں اللہ کے رسول حضرت محمد مصطفی احمد مجتبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتا دیا ہو اہے کہ اللہ ہے تو وہ مانتے ہیں کہ واقعی اللہ ہے ۔ 
انہیں معلو م ہے کہ آمنہ رضی اللہ عنھاکے راج دُلا رے کی زبان مبارک سے ہمیشہ سچ ہی نکلا۔ بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جان کے دشمن بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو صادق اور امین کے القابات سے پکارتے تھے تو پھر کلمہ گو مسلمان کیوں نہ آپ کی ہر بات پر یقین کرے ۔
جب خدا کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دیا کہ تمہارا رب صرف اللہ ہے وہی عبادت کے لائق ہے وہ ہی حقیقی کار ساز ہے۔ وہی سب کا خالق حقیقی ہے تو جن لو گوں نے اس بات کو دل سے قبول کرلیا وہ متقی لو گوں کی پہلی شرط پر پورے اُتر آئے۔ پھر جب وہ خدا کا شکر ادا کرنے کی غرض سے نماز کے پابند ہوگئے تو وہ تقویٰ کی دوسری شرط پر عمل پیرا ہوگئے۔ جب انہوں نے زکوۃ اد ا کرنے کو اپنی زندگی کا لازمی جزو بنالیا تو یہ متقی ہونے کی تیسری شرط تھی۔ پھر جو لو گ اللہ کو بھی ایک مانتے ہیں اس کو حاضر و ناظر بھی جانتے ہیں۔ا س کی رضا بھی چاہتے ہیں۔ اس کا شکر بھی ادا کرتے ہیں اس کے بندوں کے حقوق بھی پورے کرتے ہیں۔ ماں باپ کا احترام بھی کرتے ہیں۔ اساتذہ کا ادب بھی کرتے ہیں چھو ٹوں پر شفقت بھی کرتے ہیں۔کسی کو بلا وجہ تنگ نہیں کرتے۔ بُرائی کا بدلہ بھی نیکی سے دیتے ہیں۔ تو پھر وہ نیکی کا بدلہ تو ضرور نیکی ہی سے دیتے ہوں گے۔ تو اس کا مطلب یہ ہو اکہ وہ قرآن پاک پر مکمل ایمان رکھتے ہیں اور اس کی تعلیمات پر عمل تو وہ پہلے ہی سے کر رہے ہیں ۔ تو قرآن کو اللہ کاکلا م ماننے والے سابقہ تمام انبیا ء کرام علیھم السلام اور گزشتہ آسمانی الہامی کتابوں پر بھی یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے وہ تمام کتابیں جب نازل فرمائی تھیں تو ان پر اس دور میں عمل کرنا ضروری تھا۔ تویہ لو گ متقی ہوگئے۔ اللہ سے ڈرنے والے ہو گئے اللہ سے ڈرنے کا مطلب ہے کہ وہ اللہ کی ناراضگی سے ڈرتے ہیں۔ وہ کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہتے جس سے اللہ کے احکامات کی خلاف ورزی ہواور جس سے اللہ عزوجل ناراض ہو ۔ ایسے لو گ بہت ہی عمدہ لو گ ہوتے ہیں وہ ایسی عاجزی کو اختیار کیے بیٹھے ہوتے ہیں کہ وہ کسی کو بہت بڑے بن کر نہیں دکھاتے اور لو گوں پر اپنا رعب نہیں ڈالتے۔ وہ لو گوں کے سروں پر حکومت نہیں کرنا چاہتے وہ لو گوں کے دلوں میں گھر کر جاتے ہیں۔ اگر ہم سب اسی نہج پر سو چ کر اپنی زندگی میں تبدیلی لے آئیں تو یہ معاشرہ آج پھر مسلمانوں کے ابتدائی دور کا نقشہ پیش کرسکتا ہے ۔ اقبال نے کہا تھا 
آج بھی ہو جوبراہیم کا ایمان پیدا 
آگ کر سکتی ہے انداز گلستان پیدا 
جب انسان کوئی برا کام کرنے کا سو چنا ہے اور اس کے اندرسے آواز آتی ہے کہ یہ کام اچھا نہیں ہے یہ اس کے ضمیر کی آواز ہوتی ہے جو اُسے جھنجھوڑتا ہے کہ تو احسن تقویم ( اشرف المخلو قات ) ، تو انسان ہے۔ تو انبیاء کرام علیہم السلام کی اولاد میں سے ہے۔ تیرے آباؤ اجداد میں سے حضرت آدم علیہ السلام سب سے پہلے آدمی تھے ۔
وہ تو اللہ کے نبی تھے ۔ وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے عظیم و برگزید ہ پیغمبر تھے ۔ ان کو تو تما م فرشتوں نے سجدہ کیا تھا۔ وہ تو سجو د ولائک تھے۔ وہ دنیا کی تمام مخلوقات سے اعلیٰ و برتر تھے۔ حیوان و نباتا ت و جماتات تو ایک طرف اللہ کے معصو م فرشتوں نے بھی ان کو تعظیمی سجدہ کیا تھا۔ جب ضمیر انسان کو جگاتا ہے تو وہ گناہ کرنے سے باز رہ جاتا ہے ۔ ایسا نفس نفس لوامہ کہلا تا ہے۔ جو غلط کام کے سو چنے پر بھی لعنت ملا مت کرے۔ اگر خدانخواستہ کوئی غلطی بھولے سے سر زد ہو جائے تو نفسِ لو امہ انسان کو اس سے شر مندہ کر کے تو بہ کی طرف لے کرآتا ہے اور انسان خو د سے یہ وعدہ کر تا ہے کہ اب آئندہ ان شاء اللہ میں کوئی گناہ نہیں کروں گا ۔کسی جرم کا ارتکاب نہیں کرو ں گا۔ اسی دوران میں اگر کبھی کسی دینی محفل میں شمولیت کا مو قع مل جائے تو وہ فوراَ پختہ ارادہ کر لیتا ہے کہ اب ہمیشہ وہ ان برے خیالات سے بچنے کی کو شش کر ے گا۔ اللہ کے فرمان کے مطابق نما ز برائی اور بے حیائی کے کاموں سے منع کرتی ہے اور انسان کے دل کے آئینے کو صاف کر دیتی ہے ۔ کیونکہ یہ ذکر الٰہی کی ایک صورت ہے اور ذکر الٰہی سے دل کو اطمینا ن نصیب ہو تا ہے ۔ پھر بندہ اللہ پاک کی ذات مبارکہ سے حیا کر تا ہے اور یہی حیا اس کا ایمان مضبوط کر تا ہے اسی سے اس کی روح کو سکون نصیب ہوتا ہے ۔پھر وہ ایک مطمئن دل والی شخصیت بن جاتا ہے ۔ اس کا دل صرف تلاوت قرآن مجید میں لگتا ہے ۔ اس کو لطف نماز پڑھ کر ملتا ہے اس کا نفس نفلی روزے رکھنے سے قابو میں رہتا ہے اور درود پاک پڑھنے سے اس کا ذہن بُرے و سوسوں سے پاکت رہتا ہے۔ اس کی نظروں کو ٹھنڈک شرم و حیا سے پہنچتی ہے۔ وہ دنیاکے گلے شکو ے کرنے کی بجائے اپنے رب کا شکر ادا کرتا ہے وہ لو گوں کی چغلیاں کرنے کی بجائے ان کی خو بیاں بیان کر کے ان کو بھی نیک بن جانے کی دعوت دیتا ہے ۔ وہ سنت رسول پر عمل کر کے خو ش ہو تا ہے اور دوسروں کو بھی اس کی دعوت دیتا ہے ۔ وہ لو گوں سے کہتا ہے کہ وہ عظیم لو گ ہیں۔ وہ لو گوں کو گھٹیا نہیں سمجھتا۔ لو گوں کو ان کی عظمت یا د دلا کر نیکی کی طرف رجوع کرنے کا درس دیتا ہے یہی و ہ مقام ہو تا جس پر اس کا نفس نفس مطمنہ بن جاتا ہے ۔ وہ اللہ کے محبو ب لو گوں کی فہرست میں شامل ہو جاتا ہے ۔ کیونکہ اُسے اللہ کی محبت حاصل کرنے کا راز معلوم ہو تا ہے کہ اللہ کی محبت حاصل کرنے کے لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ پر عمل کرنا ضروری ہے ۔ اسی اسوہ حسنہ پر عمل کرنے کی وجہ سے وہ معاشر ے میں ممتا ز ہو جاتا ہے لیکن وہ خو د کو دنیا میں عاجز بندہ بنا کر رکھتا ہے ۔ وہ خا مو شی سے لو گوں کی مدد کرتا ہے ۔ اُسے رشتہ داروں کے ساتھ حُسنِ سلو ک رکھنے کی تعلیمات یا د ہوتی ہیں ۔ ہمسائیوں کے حقوق ذہن نشین ہوتے ہیں ۔ وہ آزمائشوں کے دوران میں صبر کا دامن ہا تھ سے نہیں چھوڑتا ۔ وہ کبھی غصے میں یا طیش میں نہیں آتا کیونکہ اس سے اس کی شخصیت باوقار نہیں رہتی ۔ غصے میں آجانے والا بندہ دوسروں کی نظر میں گر جاتا ہے ۔ وہ چیخ و پکار کر کے اپنا غصہ تو نکال لیتا ہے لیکن عوام میں اور اپنے چاہنے والوں میں اپنی عزت کھو بیٹھتا ہے ۔ بعد میں ندامت کے احساس سے بچنے کے لیے وہ پہلے ہی غصے سے پر ہیز کرتا ہے ۔ مطمئن نفس والا انسان سکون میں رہتا ہے اور دوسروں کے لیے بھی سکون کا باعث بنتا ہے ۔ لو گ اس سے ملا قات کر کے دلی فرحت و تازگی محسوس کرتے ہیں اورجب وہ اطمینان والی روح اپنے رب کی طرف واپس چلی جاتی ہے تو وہ اس کے خاص بندوں میں شامل ہو جاتا ہے اور اس کی جنت میں داخل ہو تا ہے ۔ ایسے پر ہیز گار اور خدمت خلق کرنے والے بندے کو لو گ اُس کے مرنے کے بعد بھی مدتوں یاد رکھتے ہیں۔ اس کی مثالیں دے دے کر اپنے اعمال کو درست کرنے کی کو شش کرتے ہیں ۔ نفس امارہ سے نفس لوامہ اور پھر وہاں سے نفس مطمئنہ کا کامیاب سفر انسان کو ابدی زندگی سے ہم کنار کر دیتا ہے ۔ 

Report of 1st Islamic Learning Session

ہمارے قائد حضرت علامہ مفتی محمد ارشد القادری کے چھوٹے بیٹے احمد رضا قادری ایک عرصہ سے چاہتے تھے کہ ہماری تحریک تعلیم و تربیت اسلامی بھی اپنے جامعہ سے باہر نکل کر مختلف پروگرام منعقد کرے۔ اس میں خاص رائے یہ تھی کہ چونکہ حضرت علامہ صاحب کاخاصہ داتا دربار والی جامع مسجد میں سوالوں کے جوابات دینا ہے اس لیے سوال و جواب ہی کی نشست کو منعقد کیا جائے۔ تاکہ ترویج دین کا یہ انداز بھی عوام الناس کے سامنے آئے۔ ہمارے آج کے دور میں فتنوں کی بھرمار کی وجہ سے نت نئے سوالات جنم لیتے رہتے ہیں۔ جن کا حل قرآن و حدیث کی روشنی میں مطلوب ہوتا ہے۔ جدید سائنس کی بدولت آنے والے تبدیلیوں کی وجہ سے مسائل کا حل بھی اسلامی تعلیما ت کی رو سے معلوم ہونا ضروری ہوتا ہے۔ بہر حال اس کے لیے ایوان اقبال میں اس پروگرام کو ترتیب دینے کے لیے سوچا جانے لگا۔ اور اس کے لیے انتظامات کیے گئے۔ احباب کو دعوت دی گئی۔ اشتہارات اور فلیکس وغیرہ کے ذریعے دعوت کو عام کیا گیا۔ میں اٹھائیس اپریل کو وقت سے قبل ایک فون کال کرنے کے بعد محمد کامران اخترؔ کے ہاں شاہ عالم مارکیٹ گیا اور ہم دونوں ایک بج کر بیس منٹ پر ایوان اقبال کے باہر جا پہنچے۔ سامنے سے ایک قافلہ آ رہا تھا۔ جس کے جھرمٹ میں حضرت مفتی صاحب بھی چلے آ رہے تھے۔ ہال میں جا کر دیکھا ہم ہی اولین لوگ تھے جو داخل ہوئے۔ ایک دو منٹ بیٹھنے کے بعدسوچا کہ جانے یہاں قریب مسجد ہے یا نہیں؟ وہاں ایک صاحب اپنی ٹیم کو انتظامی امور سمجھا رہے تھے۔ اور ان میں انتظامیہ کے کارڈز تقسیم فرما رہے تھے۔شاید ان کا نام منور تھا۔ میں بھول چکا ہوں۔ ہم نے باہر جا کر کسی سے مسجد کا پوچھا۔ انہوں نے اسی محترم کی طرف اشارہ کیا انہوں نے کہا مسجد ادھر ہی ہے اندر کہیں لیکن مجھے اس کا راستہ معلوم نہیں۔ ایک صاحب نے بتایا کہ اُس طرف چلے جائیں وہاں نمل یونیورسٹی کے کیمپس کی طرف آگے جا کے مسجد ہے۔ وہاں جا کر وضو کیا اور جامعہ اسلا میہ رضویہ کے صدر مدرس علامہ سعید احمد کی اقتداء میں نماز ظہر اداکی۔ میرے موبائل پر محترم محمد زید مصطفی رابطہ کر رہے تھے۔ دو بجنے والے تھے۔ میں پھر ہال میں جا پہنچا۔ محمد زید مصطفی اپنا لیپ ٹاپ لے کر وہاں موجود تھے۔ انہیں یہ پروگرام یو سٹریم پر اپنے چینل پر نشر کرنا تھا لیکن صرف ایک تار کی کمی تھی۔ وہ بھی مل گئی۔ تھوڑی دیر کے بعد محترم عاکف قادری نے حاضرین کو پروگرام کے بارے میں بریفنگ دی۔ انہوں نے سوال کرنے کا طریقہ سمجھایا۔ انہوں نے مہمانوں اور علماء کرام کو خوش آمدید کہا ۔ پھرانہوں نے علامہ عثمان نوری قادری کو نقابت کے لیے مائیک پر بلایا۔
پھر محترم احمد رضا قادری نے اپنے خیالات کا اظہار کیا
علامہ عثمان نوری قادری نے علامہ قاری سعید احمد صاحب کو تلاوت قرآن مجید کی دعوت دی۔
اور علامہ سعید احمد صاحب نے سورہ رحمان کی چند آیات کی تلاوت فرمائی۔
ہال بھرا ہوا تھا اور اس دوران میں علماء کرام بھی تشریف لے آئے۔
جناب احمد رضا قادری نے مائیک پر آ کر تمام مہمانوں اور علماء کرام کو خوش آمدید کہا۔
علامہ عثمان نوری قادری نے کراچی سے تشریف لائے ہوئے حضرت علامہ سید ارشد حسین کچھوچھوی کو بلایا۔ اور شاہ صاحب نے اسلامک لرننگ سیشن کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار فرمایا۔
محبی محمد زید مصطفی کی آن لائن براڈکاسٹنگ جاری تھی۔ لیکن ان کا کیمرا صرف مقرر کا چہرہ دکھا سکتا تھا۔ النور میڈیا ڈاٹ نیٹ والے چار کیمروں کی مدد سے بہت ہی بہترین قسم کی وڈیو آن لائن براڈکاست کر رہے تھے۔ یہ میری غلطی کہہ لیں کہ قبل از وقت دوستوں کو لنک نہ دیئے۔ اسی دوران میں میرے دوست حافظ سید محمد حسنین اور محمد دانش بھی تشریف لائے۔
مولانا عثمان نوری صاحب ایک بار پھر ڈائس کے سامنے آئے۔
انہوں نے اسلامک لرننگ سیشن کے مقاصد سے آگاہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ مفتی صاحب کے پاس داتا دربار مسجد میں ان کی نشست میں ایک بار سوال کرنے تین نوجوان آئے وہ کسی جامعہ کے فاضل تھے۔
ان میں سے ایک نے نماز کے بعد ذکر بالجہر کے بارے میں سوال کیا۔
مفتی صاحب نے جوابا حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث سنائی۔ کہ وہ فرماتے ہیں میرا گھر مسجد نبوی کے ساتھ تھا جب میں ذکر کی آواز سنتا تو سمجھ لیتا کہ نماز مکمل ہو گئی۔
جلدی سے دوسرے نوجوان نے سوال کیا کہ وہ خود نماز کیوں نہیں پڑھتے تھے۔
مفتی صاحب نے کہا کہ وہ اس وقت تک نابالغ تھے۔ اس وقت تک ان پر نماز فرض نہ تھی۔
تیسرے نوجوان نے کہا کہ آپ کو معلوم ہوگا کہ نابالغ کی گواہی یعنی روایت قبول نہیں۔
مفتی صاحب نے نے کہا کہ انہوں نے یہ روایت بچپن میں بیان نہیں کی۔ وہ معرکہ کربلا کے بعد تک زندہ رہے۔ اور انہوں نے اس عمر میں بیان کی۔
بہرحال وہ تینوں نوجوان مطمئن ہو گئے۔
عثمان نوری صاحب نے اکبر الٰہ آبادی کے ایک شعر سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہوئے کہا کہ علوم عربیہ کا فاضل پوری قوم و ملت کے بارے میں سوچتا ہے جبکہ جدید علوم کا فاضل صرف فکر معاش میں سرگرداں رہتا ہے۔
اس کے بعد انہوں نے علامہ فاروق ضیائی قادری کو دعوت خطاب دی۔ لیکن پہلے مانچسٹر سے تشریف لائے ہوئے ایک پاکستانی نعت خواں نویدالقمرنے نعت سنائی جنہیں احمد رضا قادری صاحب نے بلایا تھا۔ پھرعلامہ فاروق ضیائی قادری صاحب نے ذراجاندار الفاظ میں اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں کی خوب خبر لی۔ جسے بعد میں کچھ لوگو ں نے سخت رویہ قرار دیا۔
بعد ازاں تعلیم و تربیت اسلامی کے مبلغ مولانا مظہر اقبال قادری نے ایک چھوٹی سی تقریر کی۔

ان کے بعد حضرت علامہ مفتی محمد ارشد القادری کو سٹیج سے ڈائس کی طرف دعوت دی گئی۔ اسی اثناء میں مولانا نذیر احمد قادری نے شیخ الحدیث مولانا عبدالستار سعیدی صاحب کے مبصر کے طور پر مائیک سنبھال کر اپنا اظہار خیال کیا۔ اور علامہ محمد ارشدالقادری کے ساتھ وابستہ پرانی یادوں کو تازہ کیا۔ اور حضرت علامہ پر قائد ملت اسلامیہ علامہ شاہ احمد نورانی کی خصوصی نظر کرم کو یاد کیا۔ پھر تین بج کر چونتالیس منٹ کے بعد مفتی صاحب مائیک کی زینت بنے۔
چند منٹ انہوں نے اپنی بات کہی۔ پھر تین بج کر اٹھاون منٹ پر سوالات کا آغاز ہوا۔ جو ایک گھنٹے کے دورانیے پر محیط تھا۔ پہلا سوال تصویر کی حرمت کرے بارے میں ہوا دوسرا ووٹ کے بارے میں ہوا۔ پھر میں بھی اس لائن میں چلا گیا جہاں لوگ سوالات پوچھ رہا تھے۔ حاضرین کے لیے دو جگہوں پر مائیک کا انتظام تھا۔ میں بائیں جانب گیا۔ کچھ سوالات تحریری بھی تھے۔ میں نے بھی ایک سوال طریقہ انقلاب نبوی کا کیا۔
پروگرام کے آخر میں دانش اور میں پینے کے پانی کی تلاش میں اوپر ادھر ادھر پھرے لیکن پانی نہ ملا واپس ہال میں پہنچے تو علامہ مولانا نورالمصطفیٰ دعا مانگ رہے تھے۔ اور لوگوں کا ہجوم ان کے اردگرد جمع تھا۔ میں اس روئیداد میں تمام مشاہدے اور کیفیات کو بیان نہیں کر پایا۔ بہرحال اس سے بھی گزارہ چل ہی جائے گا.

جمعہ، 3 مئی، 2013

Mayoosi aur Shukr

مایوسی اور شکر ۔ از قلم۔ عبدالرزاق قادری 


انسان میں خو اہشات پیدا ہوتی رہتی ہیں یہ انسانی نفس کی پیداوار ہوتی ہیں۔ یہ اتنی زیادہ ہوتی ہیں کہ ایک بندہ ان تمام کو فوراًعملی جامہ نہیں پہنا سکتا اور ان میں سے بعض ایسی بھی ہوتی ہیں جن پر عمل پیرا ہونے کی اجازت انسان کو معاشرہ، مذہب اور اخلاقی اقدار ہرگز نہیں دیتیں۔ پھر یہ انسانی ذہن کے کسی کو نے میں ذخیرہ ہو نا شروع ہو جاتی ہیں۔ عام طور پر انسان سمجھتا ہے کہ وہ ان کو بھول چکا ہے۔ دراصل وہ اس کے ذہن میں لا شعوری طور پر موجود رہتی ہیں۔ لیکن ان کا اظہار یا احساس عام حالا ت میں نہیں ہو تا۔ اس معاملے کا تعلق کسی حادثے سے یا کسی خو شی سے ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر انسان پر کبھی کو ئی مشکل وقت آن پڑتا ہے اور اُسے یوں محسوس ہوتا ہے کہ میرا کوئی ساتھی نہیں ہے ۔ میں پوری دنیا میں اکیلا ہوں میری مجبوریوں کو کوئی نہیں سمجھتا اور کوئی بھی میری مدد کرنے کو تیار نہیں۔ تو ان حالات میں اس کے لاشعور میں دبی ہوئی خواہشات ایک انتقامی جذبے کی صورت میں سر اُ ٹھا تی ہیں۔ اس کے ہو ش و حواس پر جذبات کا غلبہ طاری ہونے لگتا ہے۔ وہ ان واقعات کو یاد کرتا ہے جب کبھی اُس نے دوسروں پر احسا ن کیا ہو۔ ان کو یا د کرکے وہ اپنے کیے ہوئے اچھے اعمال کو اپنی بے وقوفی گر دانتا ہے۔ وہ دلیل کے ساتھ سوچتا ہے کہ یہ معاشرہ بے حس ہے۔ تمام لو گ بے وفا ہیں۔ ان سے بھلائی کی اُمید نہیں رکھنی چاہیے یہ جذبات اس کو فکری طور پر مشتعل کر دیتے ہیں۔ اس کے پاس نفرت کے بیج بونے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ یہ ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ اس دوران میں انسان اگر اپنی انا کی خاطر یا جذباتی دباؤ کی وجہ سے کسی منفی سوچ کے دامن میں اپنی پنا ہ ڈھونڈ لے تو یہ صورت حال اس کی آئندہ زندگی کے لیے خطرناک ثابت ہوتی ہے۔ کیونکہ یہ وہ موڑ ہوتا ہے جب وہ قوت فیصلہ اور قوت اراردی سے محروم ہو تاہے۔ اُس وقت اُسے اچھائی اور برائی میں کوئی تمیز نظر نہیں آتی۔ ایسے کڑے وقت میں اگر وہ صبر کا دامن تھام کر فوری فیصلہ کرنے سے باز رہے تو مستقبل میں اچھے نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ 
دراصل یہ کچھ آزمائش ہوتی ہیں۔ انسان کو ان میں گزرنا پڑتا ہے اور ان سب معاملا ت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسے موقع پر حوصلہ ہار دینا مایوسی ہے ۔ مشکل اوقات میں مایوس ہو جانے کانام بہادری نہیں ہے۔ انسان کو ثابت قدم رہنا چاہیے اور اللہ عزوجل پر بھر وسہ کرنا چاہیے۔ دوسروں میں مثالی شخصیات ڈھونڈنے کی بجائے خو د ایک نمونہ بن کر لو گوں کی راہنمائی کا سبب بن جانا چاہیے ۔ اس قوم کو اب امید کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے محنت کی ضرورت ہے۔ جب انسان دُکھی ہو، پریشان ہو تو اُسے چاہیے کہ وہ لو گوں کے دُکھ درد جانے۔ نجانے کتنے لو گ بے شمار مسائل کا شکا ر نظر آئیں گے۔ ہمارے دور میں اخبارات اور خبریں نشر کرنے والے آلا ت سے عوام الناس کے دُکھ درد سے جب دُنیا کے مسائل سُنے گا یا دیکھے گا تو وہ اپنے مسائل بھول کر خدمت خلق کا سو چنا شروع کر دے گا کہ اس کے تو مسئلے ہی چھوٹے چھوٹے تھے۔ شکر ادا کرنے کا بہترین طریقہ نماز ادا کرناہے تو اس کے لیے وہ مسجد کی راہ پکڑے گا اور مسجد میں نما ز پڑھ کر وہ رب العالمین کا شکر گزار بندہ بن جائے گا۔ تو خو د بخو د اس کے دل سے بوجھ اُتر جائے گا اور وہ لو گوں کو نیک نگاہوں سے دیکھنا شروع کر دے گا۔ اس کو انسانیت سے محبت ہونا شروع ہوجائے گی ۔ وہی لو گ جنہیں تھوڑی دیر پہلے وہ گھر میں بیٹھ کر بُرا بھلا کہہ رہا تھا اب وہی اُسے اللہ کی بہترین مخلوق کے طور پر نظر آرہے ہوں گے۔ مسجدمیں جاکر بڑے بڑے سخت دل لو گ بھی نرم ہو جاتے ہیں۔ تو مایوسی کا شکار بندہ ان کے اپنائیت بھر ے رویے سے ضرور متاثر ہو گا اور اس کی زندگی میں آسانی کی مختلف راہیں کھلتی چلی جائیں گی اور وہ دوبارہ ایک معتدل، متوازن اور مطمئن انسان کے طور پر زندگی بسر کرنا شروع کر سکتا ہے اور اگر وہ جذباتی دباؤ کے وقت منفی جذبوں کی بھینٹ چڑھ جائے تو اس کی موجوں کا رُخ تخریبی سرگرمیوں کی طرف مُڑ سکتا ہے اور وہ نفرتوں کو پروان چڑھا سکتا ہے ۔ وہ اپنا طرز زندگی بدل سکتا ہے۔ لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کے اندر ایک چیز بطور محتسب رکھی ہے۔ وہ ہے اس کا ضمیر۔ جب کبھی انسان بے باک ہو جائے۔ اور حقائق سے انحراف کرنا شروع کر دے اور غیر مہذب سر گرمیوں میں ملوث ہو جائے تو کبھی نہ کبھی اس کے اندر سے آواز آتی ہے کہ یہ سب اعمال غلط ہیں۔ مجھے یہ سب چھوڑ دینا چاہیے۔ یہ ایک دوسرا اہم مو قع ہوتا ہے۔ اس موقع پر بھی اس کی قوت فیصلہ کا امتحان ہوتا ہے۔ اگر وہ حقائق کو مان کر اپنی زندگی کو واپس درست راہ پر لے آئے تو وہ مضبوط قوت ارادی کا حامل بن سکتا ہے ۔ لیکن اگر وہ اس موڑ پر بھی بہک جائے تو یہ بھی نفس و شیطان کی ایک چال ہوتی ہے اور شیطان تو انسان کا کھلا دشمن ہے۔ پھر انسان اپنے دشمن کا دوست کیوں بن جاتا ہے۔ وہ اپنے دشمن کے ساتھ جنگ کیوں نہیں کرتا۔ حالانکہ اس کا دشمن تو روز اول سے اعلان جنگ کر کے برسر پیکار ہے اور انسان آخری فیصلہ کرنے سے محروم !

Download Free Quran 16 Lines in pdf

Download Free Hafizi Al Quran Al Kareem 16 Lines Download Free Hafizi Al Quran Al Kareem 16 Lines Taj Company in pdf single file

Quran 16 Lines Taj Company in pdf Download Free

Hafizi Al Quran Al Kareem 16 Lines Taj Company ltd Limited in pdf single file
To Download Free Click at the below

بدھ، 1 مئی، 2013

TTI_PK on Twitter


TTI_Official (TTI_PK) on Twitter
https://twitter.com/TTI_PK‎
The latest from TTI_Official (@TTI_PK). Taleem o Tarbiyat Islami Pakistan is an Islamic Movement, Which is working for Unity, Serve and Stability Of Muslim Ummah.