بدھ، 13 فروری، 2013

کتابِ زیست کےہر باب کے عنوان میں تم ہو...نعیم قیصر

کتابِ زیست کےہر باب کے عنوان میں تم ہو
ہے یہ تحریر سے ظاہر میرے وجدان میں تم ہو

اماوس ہے تیرا کاجل، جبیں ہے نور کا پرتو
چمن کی ہر کلی سے پھوٹتی مسکان میں تم ہو

کوئی اجڑا ہوا مندر، اٹی ہو گرد سے مورت
کچھ ایسے ہی میری جان اس دلِ ویران میں تم ہو

مجھے زندہ لیے پھرتا ہے یہ احساس کہ اب تک
تیری پہچان میں مَیں ہوں، میری پہچان میں تم ہو

میرے خوابو! اداسی ہے مری آنکھوں میں بعد ان کے
اگرچہ رت جگے مغوی ہیں، پر تاوان میں تم ہو

یہی کافی ہے بتلانا فقط اک دل ہے سینے میں
بہت ارمان ہیں دل میں، ہر ارمان میں تم ہو

تو کیا غم ہے جو حاوی ہو گیا ہے لشکر اعداء
تمہاری جیت ہے قیصر ابھی میدان میں تم ہو